المؤخر
كلمة (المؤخِّر) في اللغة اسم فاعل من التأخير، وهو نقيض التقديم،...
عروہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: ”میرے بھانجے! رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ہم ازواجِ مطہرات کے پاس رہنے کی باری میں بعض کو بعض پر فضیلت نہیں دیتے تھے۔ ایسا دن کم ہی گزرتا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم ہم سب کے پاس نہ آتے ہوں اور بجز جماع کے ہر ایک سے قریب ہوئے بغیر اپنی اس بیوی کے پاس چلے جاتے اور شب باشی کرتے ہوں، جس کی باری ہوتی۔“، اور کہتی ہیں کہ جب سودہ بنت زمعہ (رضی اللہ عنہا) عمر رسیدہ ہو گئیں اور انھیں اندیشہ ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم انھیں الگ کر دیں گے، تو کہنے لگیں : اے اللہ کے رسول ! میری باری عائشہ کے لیے رہے گی۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کی یہ بات قبول فرما لی۔ عائشہ رضی اللہ عنہاکہتی ہیں: ہم کہتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے اسی سلسلے میں یا اسی جیسی اور چیزوں کے سلسلے میں آیتِ کریمہ: ”اور اگر عورت کو اپنے شوہر کی بد مزاجی کا خوف ہو“ [سورۃ النساء : ۱۲۸] نازل فرمائی۔
اس حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا اپنی بیویوں کے مابین باری سے متعلق عدل و انصاف کا بیان ہے، اس طرح کہ کسی کو کسی پر فوقیت نہیں دیتے تھے۔ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ تقریبا ہر روز آپ اپنی تمام بیویوں کے پاس جاتے تھے اور ان کے ساتھ حسنِ معاشرت اور ان کے دلوں کی طمانیت کے لیے جماع کے سوا ہر طرح کی ملاطفت و مداعبت فرماتے تھے، پھر جس کے یہاں رات گزارنی ہوتی وہاں جاتے۔ جب سودہ بنت زمعہ رضی اللہ عنہا بوڑھی ہو گئیں، تو انھیں خوف دامن گیر ہوا کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم انھیں الگ کر دیں گے۔ انھوں نے آپ کی زوجیت میں باقی رہنا اور اس شرف و فضل سے سرفراز رہنا چاہا اور یہ شرف و فضل تمام مومنین کی ماں اور سید المرسلین صلی اللہ علیہ و سلم کی بیوی ہونا ہے، اس لیے انھوں نے کہا: میں اپنی باری عائشہ کو ہبہ کرتی ہوں اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اسے قبول فرمایا۔ پھر عائشہ رضی اللہ عنہا نے اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان: ”اور اگر عورت کو اپنے شوہر کی بد مزاجی اور بے پروائی کا خوف ہو تو دونوں آپس میں صلح کر لیں اس میں کسی پر کوئی گناہ نہیں“ ذکر کیا کہ یہ اسی حالت یا اسی طرح کی چیزوں کے لیے نازل ہوئی۔