صفات الجنة والنار
اسامہ بن زید بن حارثہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ قیامت کے دن ایک آدمی کو لا کرجہنم میں پھینک دیا جائے گا جس سے اس کی انتڑیاں باہر نکل آئیں گی اور وہ انہیں لے کر اس طرح گھومے گا جیسے گدھا چکی کے گرد گھومتا ہے۔ یہ دیکھ کر جہنمی اس کے پاس جمع ہوں گے اور اس سے کہیں گے کہ اے فلاں! تجھے کیا ہوگیا؟ کیا تو نیکی کا حکم اور برائی سے رُکنے کی تلقین نہیں کرتا تھا ؟ وہ جواب دے گا کہ میں نیکی کرنے کا حکم دیتا تھا لیکن خود نہیں کرتا تھا اور گناہوں سے روکتا تھا لیکن خود نہیں رُکتا تھا۔  
عن أسامة بن زيد بن حارثة -رضي الله عنهما- مرفوعًا: «يُؤتَى بِالرَّجُل يَومَ القِيَامَة فَيُلْقَى في النَّار، فَتَنْدَلِقُ أَقْتَاب بَطْنِه فَيدُورُ بِهَا كَمَا يَدُورُ الحِمَارُ فِي الرَّحَى، فَيَجْتَمِع إِلَيه أَهلُ النَّارِ، فَيَقُولُون: يَا فُلاَنُ، مَا لَكَ؟ أَلَم تَكُ تَأمُرُ بِالمَعرُوف وَتَنْهَى عَن المُنْكَر؟ فيقول: بَلَى، كُنتُ آمُرُ بِالمَعرُوف وَلاَ آتِيهِ، وَأَنهَى عَن المُنكَر وَآتِيهِ».

شرح الحديث :


حدیث شریف میں اس آدمی کے لیے سخت ڈراوا ہے جو اچھے کام کی دوسروں کو تو تلقین کرتا ہے لیکن خود اسے نہیں کرتا اور اسی طرح لوگوں کو برائیوں سے منع کرتا ہے اور خود ان کا ارتکاب کرتا ہے۔والعیاذ باللہ۔ قیامت کے دن فرشتے ایک آدمی کو لے کر آئیں گے اور اسے جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔ اسے نرمی کے ساتھ جہنم میں نہیں پھینکا جائے گا بلکہ ایسے پھینکا جائے گا جیسے پتھر کو سمندر میں پھینکا جاتا ہے۔ سختی کے ساتھ پھینکنے کی وجہ سے اس کی آنتیں اس کے پیٹ سے باہر آ جائیں اور وہ ایسے گھومے گا جیسے گدھا چکی میں گھومتا ہے۔ جہنم والے اس کے پاس اکٹھے ہوں گےاور اسے کہیں گے کہ تجھے کیا ہوا؟ تجھے یہاں کون سی شے لے آئی؟ تو تو اچھائی کی تلقین کیا کرتا تھا اور برائی سے روکا کرتا تھا؟ وہ اقرارکرتا ہوا کہے گا کہ ہاں میں نیکی کی تلقین تو کیا کرتا تھا لیکن خود نیکی نہیں کرتا تھا اور میں برائی سے منع کیا کرتا تھا لیکن خود اس کا ارتکاب کرتا تھا۔ چنانچہ بندے پر یہ واجب ہے کہ وہ نیکی کی تلقین اور برائی سے منع کرنے کا آغاز خود اپنے آپ سے کرے۔ کیونکہ رسول اللہ ﷺ کے بعد سب سے زیادہ حق آپ پر اپنے آپ کا ہے۔  

ترجمة نص هذا الحديث متوفرة باللغات التالية