الأيمان والنذور
ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے نذر ماننے سے منع کیا اور فرمایا کہ " نذر کوئی بھلائی نہیں لاتی۔ اس کے ذریعے تو بس کنجوس آدمی سے مال نکلوا لیا جاتا ہے‘‘۔  
عن ابن عمر -رضي الله عنهما- عن النبي -صلى الله عليه وسلم- «أنه نهى عن النذر، وقال: إنّ النَّذْرَ لا يأتي بخير، وإنما يُسْتَخْرَجُ به من البخيل».

شرح الحديث :


نبی ﷺ نے نذر ماننے سے منع فرمایا اور اس ممانعت کی علت یہ بیان کی کہ اس سے کچھ خیر نہیں ملتی کیوں کہ اس سے انسان اپنے اوپر ایک ایسی چیز واجب کر لیتا ہے جو اس پر واجب نہیں ہوتی اور یوں یہ خدشہ پیدا ہو جاتا ہے کہ اس کی ادائیگی میں اگر اس سے کوئی کوتاہی ہو جائے اور اس کی وجہ سے وہ گناہ گار ہوجائے۔اس کی ممانعت کی ایک اور وجہ یہ ہے کہ مطلوبہ شے کے حصول پر یا پھر کسی ناپسندیدہ بات کے زائل ہونے کے ساتھ عبادت کے بجالانے کو مشروط کرنے میں اللہ کے ساتھ معاوضہ طے کرنے کی نیت پائی جاتی ہے اور ہو سکتا ہے کہ انسان یہ گمان کرنے لگے کہ اللہ نے اس کی چاہت کو اس لیے پورا کیا ہے تا کہ وہ اس کی عبادت کرے۔ العیاذ باللہ۔ ان مذکورہ بالا اسباب اور کچھ دیگر وجوہات کی بنا پر نبی ﷺ نے اس سے منع فرمایا تاکہ( ان باتوں سے) محفوظ رہا جا سکے اور بلا کسی عوض اور شرط کے محض امید اور دعا کے ساتھ اللہ کے جود و سخا پر نظر رکھی جائے۔ نذر میں کوئی فائدہ نہیں ہوتا سوائے اس کے کہ اس کے ذریعے بخیل آدمی سے مال نکلوا لیا جاتا ہے جو صرف وہی فعل سر انجام دیتا ہے اور وہی کچھ دیتا ہے جس کا کرنا اس پر واجب اور حتمی ہو جائے۔ چنانچہ وہ مجبور ہوکر اور بوجھل دل کے ساتھ یہ کام کرتا ہے جو عمل کے جوہر یعنی صالح نیت اور (اس پر) اللہ کے ہاں جو اجر محفوظ ہے اس کی چاہت سے بالکل خالی ہوتا ہے۔  

ترجمة نص هذا الحديث متوفرة باللغات التالية