الوتر
كلمة (الوِتر) في اللغة صفة مشبهة باسم الفاعل، ومعناها الفرد،...
نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ’’حلال واضح ہے اور حرام بھی واضح ، اور ان کے درمیان کچھ مشتبہ چیزیں ہیں، جنہیں بہت سے لوگ نہیں جانتے (کہ حلال ہیں یا حرام) پھر جو شخص ان مشتبہ چیزوں سے بچا اس نے اپنے دین اور عزت کو بچا لیا اور جو ان میں پڑ گیا وہ حرام میں پڑ گیا (اور اس کی مثال) اس چرواہے کی سی ہے جو چراگاہ کے آس پاس اپنے جانوروں کو چراتا ہے اور قریب ہے کہ اس میں گھس جائے اور سن لو کہ ہر بادشاہ کی ایک چرا گاہ ہوتی ہے اور اللہ کی چراہ گاہ وہ چیزیں ہیں جو اس کی حرام کردہ ہیں۔ (لہذا ان سے بچو) یاد رکھو انسانی جسم میں ایک ایسا ٹکڑا ہے اگر وہ صحیح ہو جائے تو سارا جسم صحیح رہے گا اور اگر وہ خراب ہو جائے تو سارا جسم خراب ہوجائے گا، سن لو! وہ دل ہے‘‘۔
یہ ایک عمومی قاعدہ ہے کہ جن چیزوں کو اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے حلال قرار دیا ہے اورجن چیزوں کو اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے حرام قرار دیا ہے وہ سب بالکل واضح ہیں۔ مسلمانوں کے بارے میں جن اشیاء کا خوف ہے وہ متشابہ امور ہیں۔ پس جو ان متشابہ امور کو چھوڑ دیتا ہے اس کا دین محفوظ ہو جاتا ہے بایں طور کہ حرام میں واقع ہونے سے دور ہو جاتا ہے اور اس مشتبہ چیز کے ارتکاب کی وجہ سے لوگوں نے اس کی کردار کشی کرتے ہوئے اس سے متعلق جو باتیں کی تھیں اس سے بھی وہ اپنی عزت کو بچا لیتا ہے۔ جو شخص متشابہات سے پرہیز نہیں کرتا وہ یا تو اپنے آپ کو حرام میں ڈال لیتا ہے یا پھر لوگوں کو اپنی غیبت کرنے اور اپنی عزت و آبرو پر انگلی اٹھانے کا موقع دیتا ہے۔ جو شخص متشابہات کا ارتکاب کرتا ہے اس کے بارے میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اس کی مثال اس چرواہے کی سی ہے جو اپنے اونٹوں یا بھیڑ بکریوں کو کسی اور کی چراگاہ کے ارد گرد چراتا ہے۔ امکان ہے کہ اس چرواہے کے مویشی اس چراگاہ کے قریب ہونے کی وجہ سے اس کے اندر جا کر چرنا شروع کر دیں۔ اسی طرح وہ شخص بھی ہوتا ہے جو ان اشیاء کا ارتکاب کرتا ہے جن میں شبہ ہوتا ہے۔ وہ اسی طرح سے واضح حرام کے قریب پہنچ جاتا ہے اور امکان ہوتا ہے کہ اس میں پڑ ہی جائے۔ نبی ﷺ نے اس بات کی طرف اشارہ فرمایا کہ پاکیزہ اعمال باطنی اعمال پر دلالت کرتے ہیں کہ آیا وہ اچھے ہیں یا برے۔ چنانچہ آپ ﷺ نے وضاحت فرمائی کہ جسم میں ایک گوشت کا ٹکڑا ہوتا ہے جو کہ دل ہے اس کے اچھا ہونے پر جسم اچھا رہتا ہے اور اس کے بگڑنے پر جسم بھی بگڑ جاتا ہے۔