البحث

عبارات مقترحة:

الحافظ

الحفظُ في اللغة هو مراعاةُ الشيء، والاعتناءُ به، و(الحافظ) اسمٌ...

المتين

كلمة (المتين) في اللغة صفة مشبهة باسم الفاعل على وزن (فعيل) وهو...

القدوس

كلمة (قُدُّوس) في اللغة صيغة مبالغة من القداسة، ومعناها في...

بيت المقدس کی دس خصوصیات

الأردية - اردو

المؤلف ماجد بن سليمان الرسي ، ماجد بن سليمان الرسي ، صالح بن عبد الله بن حميد
القسم خطب الجمعة
النوع صورة
اللغة الأردية - اردو
المفردات الواقع المعاصر وأحوال المسلمين - الخطب المنبرية
موضوع الخطبة:الخصائص العشرة لبیت المقدسالخطيب: فضيلة الشيخ ماجد بن سليمان الرسي/ حفظه اللهلغة الترجمة: الأردوالمترجم:سیف الرحمن تیمی ((@Ghiras_4Tعنوان: بیت المقدس کی دس خصوصیاتإن الحمد لله نحمده ، ونستعينه، ونعوذ بالله من شرور أنفسنا ومن سيئات أعمالنا، من يهده الله فلا مضل له، ومن يضلل فلا هادي له، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له، وأشهد أن محمدا عبده ورسوله.(يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ) (يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِيرًا وَنِسَاءً وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي تَسَاءَلُونَ بِهِ وَالْأَرْحَامَ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيبًا)(يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَقُولُوا قَوْلًا سَدِيدًا يُصْلِحْ لَكُمْ أَعْمَالَكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِيمًا)حمد وثنا کے بعد!سب سے بہترین کلام اللہ کا کلام ہے، اور سب سے بہترین طریقہ محمد کا طریقہ ہے، سب سے بدترین چیز دین میں ایجاد کردہ بدعتیں ہیں، اور (دین میں) ہر ایجاد کردہ چیز بدعت ہے، ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی جہنم میں لے جانے والی ہے۔
  • اے مسلمانو! میں تمہیں اور خود کو اللہ کے تقوی کی وصیت کرتا ہوں، یہ وہ وصیت ہے جو اللہ نے پہلے اور بعد کے تمام لوگوں کو کی ہے: (وَلَقَدْ وَصَّيْنَا الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ مِنْ قَبْلِكُمْ وَإِيَّاكُمْ أَنِ اتَّقُوا اللَّهَ)
  • ترجمہ: واقعی ہم نے ان لوگوں کو جو تم سے پہلے کتاب دیئے گئے تھے اور تم کو بھی یہی حکم کیا ہے کہ اللہ سے ڈرتے رہو۔اللہ تعالی کا تقوی اختیار کریں اور اس سے ڈرتے رہیں ، اس کی اطاعت کریں اور اس کی نافرمانی سے گریز کریں، جان رکھیں کہ اللہ تعالی نے اپنی حکمت کے پیش نظر بعض وقتوں کو بعض پر فضیلت دی ہے، چنانچہ بعض فرشتوں کو بعض پر فضیلت بخشی، بعض کتابوں کو بعض پر برتری عطا کی، بعض نبیوں کو بعض پر فوقیت دی، بعض وقت اور بعض مقام کو بعض پر فضیلت عطا کی، اس کی ایک مثال یہ ہے کہ ارض مبارکہ (مبارک سرزمین) جس میں بیت المقدس اور اس کے گردو نواحی کا خطہ بھی شامل ہے ، کو دیگر مقامات پر برتری عطا کی گئی ہے، یہ اللہ کی حکمت اور اس کے عمدہ انتخاب کا نتیجہ ہے، (وَرَبُّكَ يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ وَيَخْتَارُ مَا كَانَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ)ترجمہ: آپ کا رب جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے چن لیتا ہے، ان میں سے کسی کو کوئی اختیار نہیں۔بیت المقدس کے معنی ہیں : وہ گھر جو شرک کے تمام مظاہر سے پاک ہے۔
  • اے اللہ کے بندو! بیت المقدس کی دس خصوصیات ہیں:
  • ۱-پہلی خصوصیت: اللہ تعالی نےقرآن مجید میں اسے بابرکت قرار دیا ہے، فرمان بار ی تعالی ہے: (سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَى بِعَبْدِهِ لَيْلًا مِنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى الَّذِي بَارَكْنَا حَوْلَهُ)ترجمہ: پاک ہے وه اللہ تعالیٰ جو اپنے بندے کو رات ہی رات میں مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک لے گیا جس کے آس پاس ہم نے برکت دے رکھی ہے۔قدس وہ جگہ ہے جو مسجد کے ارد گرد ہے۔۲-بیت المقدس کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ اللہ تعالی نے موسی علیہ السلام کی زبانی اسے مقدَّس‘ یعنی مطہَّر (پاکیزہ سرزمین) سے متصف کیا ہے: (يَا قَوْمِ ادْخُلُوا الْأَرْضَ الْمُقَدَّسَةَ الَّتِي كَتَبَ اللَّهُ لَكُمْ)ترجمہ: اے میری قوم والو! اس مقدس زمین میں داخل ہو جاؤ جو اللہ تعالیٰ نے تمہاءرے نام لکھ دی ہے۔مقدس کے معنی ہیں: پاک وصاف۔۳-بیت المقدس کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ اللہ پاک وبرتر نے اپنے نبی موسی کو حکم دیا کہ وہاں کے باشندوں سے جنگ لڑیں، جوکہ بلندقد وقامت کے ، سخت مزاج ، ظلم پرور اور صنم پرست لوگ تھے، اور یہ حکم دیا کہ بیت المقدس کو ان کے قبضے سے نکالیں، اس میں توحید کو عام کریں اور شرک کو وہاں سے دور کریں، موسی نے اپنی قوم سے کہا: (يَا قَوْمِ ادْخُلُوا الْأَرْضَ الْمُقَدَّسَةَ الَّتِي كَتَبَ اللَّهُ لَكُمْ وَلَا تَرْتَدُّوا عَلَى أَدْبَارِكُمْ فَتَنْقَلِبُوا خَاسِرِينَ)ترجمہ: اے میری قوم والو! اس مقدس زمین میں داخل ہو جاؤ جو اللہ تعالیٰ نے تمہارے نام لکھ دی ہے اور اپنی پشت کے بل روگردانی نہ کرو کہ پھر نقصان میں جا پڑو۔۴-بیت المقدس کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں خبر دی کہ موسی علیہ السلام نے اللہ تعالی سے دعا کی کہ جب ان کی موت کا وقت آئے تو ان کو بیت المقدس سےایک پتھر کی مار کے فاصلے کے برابر قریب کردے تاکہ ان کی موت اسی میں ہو، اس کی وجہ صرف یہ تھی کہ آپ بیت المقدس سے محبت کرتے تھے، اس کی دلیل ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ سے مروی یہ حدیث ہے کہ جب موسی علیہ السلام کی موت کا وقت آیا تو آپ نےاللہ تعالی سے دعا کی کہ ان کو بیت المقدس سےایک پتھر کی مار کے فاصلے کے برابر قریب کردے‘ یہ ایک معلوم سی بات ہے کہ ا س وقت مقدس سرزمین بت پرست ظالم وجابر حکمرانوں کی ماتحتی میں تھی‘ موسی کے ہاتھ میں نہ تھا کہ اس میں داخل ہوجائیں تاکہ وہیں آپ کی وفات ہو‘پھر بھی انہوں نے حتی الامکان اس سرزمین سے قریب ہونے کا ارادہ ظاہر کیا‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر میں وہاں ہوتا تو تمہیں ان کی قبر دکھاتا کہ لال ٹیلے کے پاس راستے کے قریب ہے()۔۵-بیت المقدس کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ جب یوشع بن نون نے بیت المقدس کے ظالم وجابر قوم سے جنگ کرنے کا ارادہ کیا تو اللہ پاک وبرتر نے ان کے لیے سورج کو روک دیا (یعنی اس کو حرکت کرنے سے روک دیا) ، کیوں کہ رات قریب ہوچکی تھی، آپ کے ساتھ آپ کی فوج تھی، چنانچہ آپ نے اللہ تعالی سے یہ دعا کی کہ سورج کو (غروب ہونے سے ) روک دے تاکہ وہ تاریکی چھانے سے پہلے ہی گاؤں میں داخل ہوکر ظالم وجابر قوم سے جنگ لڑ سکیں، چنانچہ اللہ تعالی نے ان کی دعا قبول فرمائی اور بیت المقدس فتح ہوگیا، ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : بے شک سورج کسی بشر کے لیے کبھی بھی نہیں روکا گیا، سوائے یوشع بن نون کے، یہ ان دنوں کی بات ہے جب وہ بیت المقدس کی طرف جا رہے تھے()۔۶-بیت المقدس کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ اس کی فتح قیامت کی علامتوں میں سے ہے، عوف بن مالک سے مروی ہے،آپ نے بیان کیا کہ میں غزوہ تبوک کے موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، آپ اس وقت چمڑے کے ایک خیمے میں تشریف فرما تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ: قیامت کی چھ نشانیاں شمار کر لو، میری موت، پھر بیت المقدس کی فتح ..."()۔۷-بیت المقدس کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ کانا دجال اس میں داخل نہیں ہوگا، بلکہ اس کے قریب ہی اسے قتل کردیا جائے گا، مسیح بن مریم علیہ السلام جب ان کو بابِ لُدّ کے پاس دیکھیں گے تو قتل کردیں گے"()، لُد ، بیت المقدس کے قریب ایک جگہ ہے۔۸-بیت المقدس کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ کافروں کے سرغنوں اور ان کے سرکردہ رہبروں کا قتل فلسطین کے اندر ہی ہوگا، چنانچہ دجال کو عیسی علیہ السلام کے ہاتھوں فلسطین میں ایک ایسی جنگ کے دوران قتل کیا جائے گا جو حقیقت میں فیصلہ کن اور نسل کش ہوگی، اس میں دجال یہودیوں کا قائد ہوگا، چنانچہ عیسی اپنی فوج کے ساتھ دجال اور اس کی فوج کو قتل کردیں گے، بلکہ ان تمام نصرانیوں کو قتل کردیں گے جو ان پر صحیح معنوں میں ایمان نہیں لائیں گے، یعنی اس بات پر ایمان نہیں لائیں گے کہ وہ ایک انسان ہیں جن کو (رسول بناکر ) بھیجا گیا ہے ، وہ نصرانیوں کے خنزیر(سُوَر) کو بھی قتل کریں گے اور ان کی اس صلیب کو توڑ ڈالیں گے جس کی وہ پرستش کرتے ہیں، یہ سارے واقعات فلسطین میں رونما ہوں گے()۔۹-بیت المقدس کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ آخری زمانے میں عیسی مسیح بن مریم کی قیادت میں جب مسلمانوں اور یہودیوں کے درمیان جنگ ہوگی تو درخت اور پتھر یہودیوں کو رسوا کریں گے، ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " قیامت قائم نہیں ہوگی یہاں تک کہ مسلمان یہودیوں کے خلاف جنگ لڑیں گے اور مسلمان ا ن کو قتل کریں گے حتی کہ یہودی درخت یا پتھر کے پیچھے چھپے گا اور پتھر یا درخت کہے گا: اے مسلمان! اے اللہ کے بندے ! میرے پیچھے یہ ایک یہودی ہے ، آگے بڑھ اور اس کو قتل کردے، سوائے غرقد کے درخت کے (وہ نہیں کہے گا) کیونکہ وہ یہود کا درخت ہے"()۔۱۰-بیت المقدس کی ایک عظیم خصوصیت یہ ہے کہ اس کے اندر مسجد اقصی واقع ہے، جوکہ ان تین مساجد میں سے ایک ہے جن کی عظمت قرآن وحدیث سے ثابت ہے، اس کی عظمت کے مختلف اسباب ہیں‘ جن میں دس اہم ترین اسباب حسب ذیل ہیں: پہلا سبب: رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو مسجد حرام سے رات کے وقت مسجد اقصی تک لے جایا گیا ، پھر آپ کو آسمان (یعنی سفرِ معراج) پر لے جایا گیا، اللہ تعالی کا فرمان ہے: (سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَى بِعَبْدِهِ لَيْلًا مِنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى)ترجمہ: پاک ہے وه اللہ تعالیٰ جو اپنے بندے کو رات ہی رات میں مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک لے گیا۔پھر جب آپ آسمان سے لوٹے تو مسجد اقصی کی طرف لوٹے ‘ پھر وہاں سے مکہ تشریف لائے‘ اس طرح مسجد اقصی سے آپ دو مرتبہ گزرے جوکہ اس کی عظمت او راہمیت پر دلالت کرتاہے۔دوسرا سبب: رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے سفرِ اسراء کے موقع سے معراج کے بعد مسجد اقصی کے اندر تمام نبیوں کی امامت فرمائی، آپ ﷐ نے فرمایا: "پھر نما ز کا وقت ہوگیا تو میں نے ان کی امامت کی "()۔تیسرا سبب: مسجد اقصی کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ اللہ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نگاہوں میں اسے نمایاں کردیا یہاں تک کہ آپ (مکہ سے ہی) اسے دیکھنے لگے، یہ اس وقت پیش آیا جب آپ نے مشرکوں کے سامنے مسجد اقصی کے سفر کا ذکر کیا تو انہوں نے آپ کو جھٹلا دیا اور آپ کو بے زبان کرنے کے لیے اس کی صفتیں آپ سے دریافت کرنے لگے، کیوں کہ ان کو معلوم تھا کہ آپ نے کبھی مسجد اقصی کا سفر نہیں کیا ہے، چنانچہ (اس موقع سے ) اللہ نے مسجد اقصی کو آپ کے لیے بلند کردیا اور آپ ان مشرکوں کے سامنے اس کی عمارت اور ایک ایک علامت بیان کرنے لگے، حضرت جابر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:" جب قریش نے مجھ کو واقعہ معراج کے سلسلہ میں جھٹلایا تو میں (کعبہ کے) مقام حجر میں کھڑا ہوا اوراللہ نے میرے سامنے پورا بیت المقدس کر دیا ۔ میں اسے دیکھ دیکھ کر اس کی ایک ایک علامت بیان کرنے لگا"()۔چوتھا سبب: مسجد اقصی کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ وہ مسلمانوں کا قبلہ اول ہے، براء بن عازب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سولہ مہینے یا سترہ مہینے تک بیت المقدس کی طرف نماز پڑھی پھر ہم کو کعبے کی طرف پھیر دیا گیا()۔پانچواں سبب: مسجد اقصی کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ وہ ان مساجد میں سے جن کی طر ف عبادت کی نیت سے رخت سفر باندھنا جائز ہے، اس کی دلیل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث ہے: "کجاوے صرف تین ہی مسجدوں کے لیے کسے جائیں: مسجد الحرام، مسجد اقصی اور میری اس مسجد (یعنی مسجد نبوی) کے لیے"()۔معلوم ہوا کہ عبادت کرنے کی غرض سے ان تین مساجد کے علاوہ دنیا کی کسی جگہ کا سفرکرنا جائز نہیں ہے۔چھٹا سبب: مسجد اقصی کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ اس میں پڑھی جانے والی نماز (دیگر مسجدوں میں پڑھی جانے والی) ۲۵۰ نمازوں سے افضل ہے ، ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ، وہ فرماتے ہیں: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے تھے کہ اسی درمیان یہ ذکر چھڑ گیا کہ کونسی مسجد زیادہ افضل ہے ، مسجد نبوی یا بیت المقدس، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میری اس مسجد (مسجد نبوی) کی ایک نماز مسجد اقصی کی چار نمازوں سے افضل ہے، وہ بڑی ہی عمدہ مسجد ہے، قریب ہے کہ (ایسا زمانہ آئے گا جب) انسان کے پاس گھوڑے کی لگام کے برابر بھی اگر زمین ہوگی جہاں سے وہ مسجد اقصی کو دیکھ سکے گا، تو وہ اس کے لیےپوری دنیا سے بہتر ، یا فرمایا: دنیا اور اس کی تمام تر نعمتوں سے بہتر ہوگی()۔اللہ کے بندو! چونکہ مسجد نبوی میں پڑھی جانے والی نماز ہزار نمازوں سے بہتر ہے، اس لیے مسجد اقصی میں پڑھی جانے والی نماز ۲۵۰ نمازوں سے بہتر ہے، کیوں کہ وہ مسجد نبوی کی نماز کی ایک چوتھائی کے برابر ہے۔ ()ساتواں سبب: مسجد اقصی کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ وہ دوسری مسجد ہے جسے روئے زمین پر تعمیر کیا گیا، ابو ذر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: ا رسول اللہ! سب سے پہلے روئے زمین پر کون سی مسجد بنی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : مسجد الحرام۔ انہوں نے بیان کیا : پھر میں نے عرض کیا : اور اس کے بعد؟ فرمایا کہ مسجد الاقصیٰیت المقدس) ۔میں نے عرض کیا: ان دونوں کی تعمیر کے درمیان کتنا فاصلہ رہا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : چالیس سال...."()۔آٹھواں سبب: مسجد اقصی کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ سلیمان بن داود علیہ السلام نے اس کی از سر نو تعمیر کی ، اللہ سے دعا کی کہ جو شخص بھی اس میں نماز پڑھے ، اس کے گناہ معاف کردے، چنانچہ اللہ تعالی نے ان کی دعا قبول فرمائی، عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ: " سلیمان بن داود علیہما السلام نے جب بیت المقدس کی تعمیر فرمائی تو اللہ تعالیٰ سے تین چیزیں مانگیں، اللہ عزوجل سے مانگا کہ وہ لوگوں کے مقدمات کے ایسے فیصلے کریں جو اللہ کے فیصلے کے موافق ہوں، تو انہیں یہ چیز دے دی گئی، نیز انہوں نے اللہ تعالیٰ سے ایسی سلطنت مانگی جو ان کے بعد کسی کو نہ ملی ہو، تو انہیں یہ بھی دے دی گئی، اور جس وقت وہ مسجد کی تعمیر سے فارغ ہوئے تو انہوں نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ جو کوئی اس مسجد میں صرف نماز کے لیے آئے تو اسے اس کے گناہوں سے ایسا پاک کر دے جیسے کہ وہ اس دن تھا جس دن اس کی ماں نے اسے جنا"()۔نواں سبب: سلیمان سے پہلے بھی بہت سے انبیائے کرام نے مسجد اقصی کی از سر نو تعمیر کی، جیسے ابراہیم اور یعقوب علیہم السلام۔دسواں سبب: مسجد اقصی کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ جس شخص نے اسے فتح کیا وہ خلیفہ راشد عمربن الخطاب رضی اللہ عنہ ہیں، آپ کے عہد خلافت میں اسلامی فوج نے صحابی جلیل ابو عبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ کی سپہ سالاری میں سنہ ھ مطابق ۶۳۶ء میں قدس کا محاصرہ کرلیا، محاصرہ کے چھ مہینے بعد نصرانیوں کے سردار نے اس شرط پر سپر ڈال دیا کہ عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ خود یہاں تشریف لائیں۔سنہ ۱۶ ھ میں خلیفہ عمر نے قدس کا سفر کیا تاکہ شہر کی کنجی حاصل کریں اور اس شہر کے اسلامی ممالک میں داخل ہونے کااعلان کریں، چنانچہ ایسا ہی ہوا، آپ اسی دروازے سے مسجد اقصی میں داخل ہوئے جس دروازے سے نبی ﷐ معراج کی رات داخل ہوئے تھے، محراب داود میں تحیۃ المسجد ادا کی، دوسرے دن فجرکی نماز میں مسلمانوں کی امامت کی ، پہلی رکعت میں سورۃ (ص) کی تلاوت کی ، سجدہ تلاوت ادا کیا ، دوسری رکعت میں (سورۃ بنی اسرائیل) کی تلاوت کی ، اسی مناسبت سے معاہدہ عمریہ تحریر کیا گیا ، جس میں شام کے نصرانیوں سے متعلق عمر رضی اللہ عنہ کے شرو ط درج کئے گئے، اس میں وہ حقوق بھی ذکر کیے گئے جو مسلمانوں کی طرف سے ان نصرانیوں کو دئے جائیں گے جو اسلامی حکومت کی ماتحتی میں فلسطین کے اندر سکونت اختیار کریں گے ، ان میں سب سے پہلا حق یہ تھا کہ مسلمانوں کے ملک میں امن وامان اور عزت وآبرو کے ساتھ زندگی گزر بسر کرنے کے بدلے وہ مسلمانوں کو جزیہ (ٹیکس) ادا کریں گے()۔
  • اللہ کے بندو! یہ وہ دس خصوصیات ہیں جن سے اللہ نے بیت المقدس کو سرفراز کیا ہے، اس کی تعظیم او ر رفعت شان کے لیے ، ہر بندہ مسلم کو چاہئے کہ انہیں جانے اور اپنی اولاد کو ان کی تعلیم دے، کیوں کہ فلسطین کا مسئلہ کوئی مادی مسئلہ نہیں ہے، بلکہ ایسا مسئلہ ہے جس کا تعلق عقیدہ سےہے، اس سلسلے میں کوتاہی او رغفلت برتنے سے ہماری دین داری مجروح ہوتی ہے، روئے زمین کے بہترین اور افاضل بادشاہوں نے سرزمینِ فلسطین سے (یہودیوں کے ناحق ) تسلط کو ختم کرنے کے لیے کمر توڑ کوششیں کیں، لیکن عصر حاضر میں فلسطین کے تعلق سے اس امت کے مجوسیوں اور ایرانی رافضیوں نے حرص وطمع کا مظاہرہ کیا، جو قدس کی آزادی کے بینر اٹھا کر مسجد اقصی تک پہنچنا چاہتے ہیں تاکہ اس پر شرک کے پرچم لہرا سکیں، وہاں اپنے ملک کاتسلط قائم کرسکیں، رب کعبہ کی قسم! یہ خائب وخاسر ہیں، کیوں کہ فلسطین کو عمر او ران کے بعد صلاح الدین نے فتح کیا تھا اور اس کی باز یافت ایسا شخص نہیں کرسکتا جو عمر اور صلاح الدین کو سب وشتم کرتا ہو!
  • اللہ تعالی مجھے اور آپ کو قرآن مجید کی برکتوں سے مالا مال کرے، مجھے اور آپ کو اس کی آیتوں اور حکمت پر مبنی نصیحت سے فائدہ پہنچائے، میں اپنی یہ بات کہتے ہوئے اپنے لیے اور آپ سب کے لیے ہر قسم کے گناہ سے مغفرت طلب کرتا ہوں ، آپ بھی اس سے مغفرت طلب کریں، یقینا وہ خوب معاف کرنے والا بڑا مہربان ہے۔
  • دوسرا خطبہ:الحمد لله وكفى، وسلام على عباده الذين اصطفى، أما بعد:اے مومنو! اے اللہ کےبندو! یہودیوں کا دعوی ہے کہ چونکہ اللہ کے نبی سلیمان علیہ السلام نے مسجد اقصی کی تعمیر کی تھی اور وہ ان ہی کی اولاد ہیں، اس لیے وہی مسجد اقصی کے سب سے زیادہ حقدار ہیں، جبکہ یہ بات سات وجوہات کی بنا پرسراسر غلط ہے:
  • پہلی وجہ:سلیمان علیہ السلام نے مسجد اقصی کو تاسیس نہیں کی تھی، بلکہ اس کی ازسر نو تعمیر کی ، اس کی تاسیس سلیمان سے بہت پہلے ہوچکی تھی، ایک قول کے مطابق آدم علیہ السلام نے اسے تعمیر کیا اور اس کے علاوہ بھی دیگر اقوال ہیں۔
  • دوسری وجہ: مسجد اقصی کی از سر نو تعمیر بھی سلیمان سے پہلے بہت سے انبیائے کرام نے کی، جیسے ابراہیم اور یعقوب، ان کی تعمیر کا مقصد یہ تھا کہ اس میں موحد بندے اللہ کی عبادت کریں، نہ کہ وہ یہودیوں کی عبادت گاہ بن جائے۔
  • تیسری وجہ: سلیمان علیہ السلام موحد تھے، لیکن یہود اپنے انبیائے کرام کے طریقے پر نہ چل سکے، بلکہ ان سے دشمنی کی، توریت اور انجیل میں تحریف کردی، وہ کافر ہوگئے، بنی اسرائیل کے زمانے میں ہی یہود اپنے کفر کی وجہ سے بنی اسرائیل سے علیحدہ ہوگئے، جیسے نوح اپنے بیٹے سے الگ ہوگئے ، ابراہیم اپنے والد آزر سے جدا ہوگئے، اور محمد اپنے چچا ابو لہب سے دامن کش ہوگئے، کفر مسلمانوں او رکافروں کے درمیان دوستی اور تعلق داری کو ختم کردیتا ہے، یہی وجہ ہے کہ بنی اسرائیل کو جو فضیلتیں حاصل تھیں ، ان میں سے کوئی فضیلت یہودیوں پر صادق نہیں آتی، ان کے کفر نے انہیں ان فضیلتوں سے محروم کردیا۔
  • چوتھی وجہ: اگر سلیمان نے مسجد کی تعمیر کی تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ اپنی نسل اور قبیلے کے لیے اس کے مالک ہوگئے، کیوں کہ انہوں نے مسجد کی از سر نو تعمیر اس لیے کی کہ لوگ اس میں نماز پڑھیں، انہیں اس سے کوئی سروکار نہ تھا کہ کونسی نسل اور قبیلہ اس میں نماز پڑھے، کیوں کہ انبیائے کرام کی دعوت نسل اور قبیلہ کے لیے نہیں تھی جیسا کہ یہودیوں کے تحریف شدہ دین میں ہے، بلکہ ان کی دعوت توحید اور تقوی پر قائم تھی۔
  • پانچویں وجہ: عمر رضی اللہ عنہ نے جب بیت المقدس کو فتح کیا تو ا یک صلح نامہ تیار کیا تھا جو اس وقت سے اب تک برقرار ہے اور مسلمان اس پر قائم ہیں اورآئندہ بھی قائم رہیں گے، وہ یہ کہ فلسطین مسلمانوں کی ملکیت میں رہے گااور اس پر ان کی ہی حکومت اور سرداری رہے گی، یہودیوں کو وہاں رہنے کی اجازت ہوگی، اس کے علاوہ ان کا فلسطین پر کوئی حق نہیں ہوگا، نیز ان سے مسلمانوں کی حکومت او رانتظام وانصرام سے فائدہ اٹھانے کے عوض جزیہ وصول کیا جائے گا۔
  • چھٹی وجہ: اللہ تعالی نے اپنی کتاب میں یہ فیصلہ کردیا ہے کہ ساری سرزمین اسی کی ہے، وہ اپنے نیک وصالح بندوں کو اس کا وارث بناتا ہے: (وَلَقَدْ كَتَبْنَا فِي الزَّبُورِ مِنْ بَعْدِ الذِّكْرِ أَنَّ الْأَرْضَ يَرِثُهَا عِبَادِيَ الصَّالِحُونَ)
  • ترجمہ: ہم زبور میں پند ونصیحت کے بعد یہ لکھ چکے ہیں کہ زمین کے وارث میرے نیک بندے (ہی) ہوں گے۔
  • یہ بات بھی ڈھکی چھپی نہیں کہ نیک وصالح وہی ہے جو دین اسلام کا پیروکار ہو، اور یہود تو رسولوں کے دشمن اور ان کے قاتل ہیں، ابن عثیمین رحمہ اللہ کے قول کا خلاصہ ہے کہ : بنی اسرائیل ارض مقدسہ کے سب سے زیادہ حقدار ہیں، یہ اس وقت ان کے لیے مقرر کی گئی جب وہ مومن تھے ، اس لیے نہیں کہ وہ بنی اسرائیل (کے قبیلے) سے ہیں، بلکہ اس لیے کہ وہ مومن ہیں، اس میں کوئی شک نہیں کہ موسی علیہ السلام کے زمانے میں وہ روئے زمین کے سب سے افضل باشندے تھے، اللہ تعالی نے فرمایا: (وَلَقَدْ كَتَبْنَا فِي الزَّبُورِ مِنْ بَعْدِ الذِّكْرِ أَنَّ الْأَرْضَ يَرِثُهَا عِبَادِيَ الصَّالِحُونَ)
  • ترجمہ: ہم زبور میں پند ونصیحت کے بعد یہ لکھ چکے ہیں کہ زمین کے وارث میرے نیک بندے (ہی) ہوں گے۔چنانچہ جس طرح اللہ تعالی نے بنی اسرائیل کو فرعون کے ملک اور اس کی سلطنت کا وارث بنایا ، اسی طرح مسلمانوں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے والوں کو بنی اسرائیل کا وارث بنایا()۔ انتہی
  • ساتویں وجہ: بالعموم تما م مسجدوں اور بالخصوص تین مسجدوں پر مومنوں کو تولیت حاصل ہوگی، نہ کہ کافروں کو، اللہ تعالی کا فرمان ہے: (مَا كَانَ لِلْمُشْرِكِينَ أَنْ يَعْمُرُوا مَسَاجِدَ اللَّهِ شَاهِدِينَ عَلَى أَنْفُسِهِمْ بِالْكُفْرِ أُولَئِكَ حَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ وَفِي النَّارِ هُمْ خَالِدُونَ*إِنَّمَا يَعْمُرُ مَسَاجِدَ اللَّهِ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَأَقَامَ الصَّلَاةَ وَآتَى الزَّكَاةَ وَلَمْ يَخْشَ إِلَّا اللَّهَ)
  • ترجمہ: ئق نہیں کہ مشرک اللہ تعالیٰ کی مسجدوں کو آباد کریں۔ درآں حالیکہ وه خود اپنے کفر کے آپ ہی گواه ہیں، ان کے اعمال غارت واکارت ہیں، اور وه دائمی طور پر جہنمی ہیں* اللہ کی مسجدوں کی رونق وآبادی تو ان کے حصے میں ہے جو اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتے ہوں، نمازوں کے پابند ہوں، زکوٰة دیتے ہوں، اللہ کے سوا کسی سے نہ ڈرتے ہوں۔
  • اے اللہ کے بندو! اللہ پاک وبرتر نے سجدہ کرنے والی پیشانیوں ، توحید پرست دلوں ، با وضو ہاتھوں اور راست گو زبانوں سے نصرت وفتح کا وعدہ کیا ہے، اللہ تعالی اپنے وعدے میں سچا ہے ، وہ وعدہ خلافی نہیں کرتا، اللہ تعالی فرماتا ہے: (وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضَى لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْنًا يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئًا وَمَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذَلِكَ فَأُولَئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ)
  • ترجمہ : تم میں سے ان لوگوں سے جو ایمان ئے ہیں اور نیک اعمال کئے ہیں اللہ تعالیٰ وعده فرما چکا ہے کہ انہیں ضرور زمین میں خلیفہ بنائے گا جیسے کہ ان لوگوں کو خلیفہ بنایا تھا جو ان سے پہلے تھے اور یقیناً ان کے لئے ان کے اس دین کو مضبوطی کے ساتھ محکم کرکے جما دے گا جسے ان کے لئے وه پسند فرما چکا ہے اور ان کے اس خوف وخطر کو وه امن وامان سے بدل دے گا، وه میری عبادت کریں گے۔ میرے ساتھ کسی کو بھی شریک نہ ٹھہرائیں گے۔ اس کے بعد بھی جو لوگ ناشکری اور کفر کریں وه یقیناً فاسق ہیں۔
  • آپ یہ بھی جان رکھیں –اللہ آپ پر اپنی رحمت نازل فرمائے - کہ اللہ تعالی نے آپ کو ایک بڑی چیز کا حکم دیا ہے، فرمان باری تعالی ہے: (إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا)
  • ترجمہ: اللہ تعالی اور اس کے فرشتے اس نبی پر رحمت بھیجتے ہیں ۔اے ایمان والو! تم بھی ان پر درود بھیجو اور خوب سلام بھی بھیجتے رہا کرو۔اے اللہ !تو اپنے بندے اور رسول محمد پر رحمت و سلامتی بھیج،تو ان کے خلفاء ،تابعین عظام اور قیامت تک اخلاص کے ساتھ ان کی اتباع کرنے والوں سے راضی ہوجا۔اے اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو عزت وسربلندی عطا فرما،شرک اور مشرکین کو ذلیل وخوار کر،تواپنے اور دین اسلام کے دشمنوں کو نیست ونابود کردے،اور اپنے موحد بندوں کی مدد فرما ۔اے اللہ! ہمیں اپنے ملکوں میں امن وسکون کی زندگی عطا کر، اے اللہ! ہمارے اماموں اور ہمارے حاکموں کی اصلاح فرما،انہیں ہدایت کی رہنمائی کرنےوالا اور ہدایت پر چلنے والا بنا۔ اے اللہ! تمام مسلم حکمرانو ں کو اپنی کتاب کو نافذ کرنے، اپنے دین کوسربلند کرنے کی توفیق دےاور انہیں اپنے ماتحتوں کے لیے باعث رحمت بنا۔
  • اے اللہ! یقینا یہودی سرکشی اور بغاوت کر رہے ہیں، وہ زمین میں بے حد فساد پھیلا رہے ہیں، اے اللہ! انہوں نے انبیائے کرام کو بھی قتل کیا، نیک بزرگوں کا خون بہایا، ملکوں پر قبضہ جمایا، مال ودولت لوٹ کھایا، اے اللہ! تو ان پر عذاب اور وبا کو مسلط کردے، اے اللہ! ان کے دلوں میں خوف ودہشت طاری کردے، اے اللہ! ہم تجھ سے شکوہ کناں ہیں، تجھ پر ہی بھروسہ کرتے ہیں، تیرے بغیر ہماری کوئی طاقت وقوت نہیں، اے اللہ! مسجد اقصی کو عزت وسربلندی عطا کر، اسے یہودیوں کی غلاظت سے پاک فرما۔
  • سبحان ربك رب العزة عما يصفون وسلام على المرسلين والحمد لله رب العالمين.
  • از قلم:ماجد بن سلیمان الرسی ۹ شوال ۱۴۴۲ھشہر جبیل-سعودی عرب00966505906761مترجم:سیف الرحمن تیمی