البحث

عبارات مقترحة:

الملك

كلمة (المَلِك) في اللغة صيغة مبالغة على وزن (فَعِل) وهي مشتقة من...

الشكور

كلمة (شكور) في اللغة صيغة مبالغة من الشُّكر، وهو الثناء، ويأتي...

السيد

كلمة (السيد) في اللغة صيغة مبالغة من السيادة أو السُّؤْدَد،...

انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم نے فرمایا: "لوگوں کو کیا ہو گیا ہے کہ وہ نماز میں اپنی آنکھیں آسمان کی طرف اٹھاتے ہیں؟" آپ نے یہ بات بڑی سخت لہجے میں کی، یہاں تک کہ آپ نے فرمایا: "لوگ اس سے باز آجائیں ورنہ ان کی آنکھیں اچک لی جائیں گی"۔

شرح الحديث :

اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نماز ی کے لیے ضروری ہے کہ حالت نماز میں وہ پر سکون رہے اور خشوع و خضوع اختیار کرے۔ خشوع قلب کی علامت اعضا کا پرسکون ہونا ہے؛ یہی وجہ ہے کہ نبی کریم نے اپنی امت کو نماز میں فضولیات اور آسمان کی طرف نگاہ اٹھانے سے ڈرایا ہے۔ کیوں کہ یہ نماز کے آداب اور رتبے کی منافی چیزيں ہیں؛ اس لیے کہ نمازی قبلہ رو، اپنے کے سامنے کھڑے ہوکر اس سے محو گفتگو ہوتاہے۔ چنانچہ اس موقع پر آسمان کی طرف نگاہ اٹھانا اللہ کے ساتھ بے ادبی کے زمرے میں آتا ہے۔ اسی لیے رسول اللہ نے انذار اور وعید میں مبالغہ سے کام لیتے ہوئے ان لوگوں کو تنبیہ کی ہے، جو دوران نماز اپنی آنکھیں آسمان کی طرف اٹھاتے ہیں کہ اس سے باز آ جائیں، ورنہ ان کی بینائی چھین لی جائے گی اور یہ اتنی تیزی سے ہو گا کہ انھیں پتہ بھی نہیں چلے گا اور نعمت بصارت سے محروم ہو جائیں گے۔ ان کے ساتھ یہ سب کچھ نماز کی توہین کی سزا کے طور پر ہو گا۔


ترجمة هذا الحديث متوفرة باللغات التالية