الرحيم
كلمة (الرحيم) في اللغة صيغة مبالغة من الرحمة على وزن (فعيل) وهي...
انس ابن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”مجھ پر میری امت کے ثواب پیش کیے گئے یہاں تک کہ وہ تنکا بھی جسے آدمی مسجد سے نکالتا ہے اور مجھ پر میری امت کے گناہ (بھی) پیش کیے گئے تو میں نے کوئی گناہ اس سے بڑھ کر نہیں دیکھا کہ کسی کو قرآن کی کوئی سورت یا کوئی آیت یاد رہی ہو اور اس نے اُسے بھلا دیا ہو“.
انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث مظاہر نبوت میں سے ایک مظہر پر مشتمل ہے کیونکہ آپ ﷺ نے فرمایا: (عرضت عليّ): گمان یہ ہے کہ یہ پیش کیا جانا معراج کی رات ہوا تھا۔ (أجور أمتي): یعنی ان کے اعمال کے ثواب۔ یہاں تک کہ جو اشیاء پیش کی گئیں ان میں "القذاة" بھی تھا۔ اس سے مراد وہ مٹی، خس و خاشاک اور گندگی ہے جو آنکھ میں پڑ جاتی ہے۔ بعد ازاں اس کا استعمال گھر وغیرہ میں آ پڑنے والی ہر شے پر ہونے لگا جب کہ وہ معمولی ہو۔ یہاں مراد وہ تھوڑی سی شے ہے جو مسلمانوں کو تکلیف دے چاہے وہ تنکے ہوں یا گندگی وغیرہ ہوں۔ کلام میں مضاف مقدر کرنا ضروری ہے۔ یعنی میری امت کے اعمال کے اجر۔ خس و خاشاک کے اجر سے مراد خس و خاشاک کو باہر نکالنے کا اجر ہے۔ اس میں اس بات کی خبر ہے کہ آدمی جو کچھ بھی مسجد سے باہر نکالتا ہے چاہے وہ کم ہی ہو اس پر اسے اجر ملتا ہے۔ کیونکہ اس سے اللہ کے گھر کی صفائی ہوتی ہے۔حدیث کے مفہوم مخالف سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ مسجد میں کوڑا کرکٹ وغیرہ ڈالنا گناہ کا کام ہے۔ حدیث میں کم تر کو ذکر کر کے اس سے بڑی اشیاء کے بارے میں تنبیہ مقصود ہے کہ اگر اس تھوڑی سے شے کو لکھ لیا گیا اور اسے نبی ﷺ پر پیش کیا گیا تو بڑی اشیاء کو لکھا جانا اور اسے آپ ﷺ پر پیش کیا جانا بطریق اولی ہو گا۔پھر آپ ﷺ نے فرمایا کہ: (فلم أرَ ذنباً أعظم من سورة): یعنی کسی بھی قرآنی سورت کو بھول جانے کے گناہ سے زیادہ بڑا کوئی گناہ میں نے نہیں دیکھا۔ یہاں بھول جانے پر وعید ہے کیونکہ اس شریعت کا دار و مدار ہی قرآن پر ہے۔ چنانچہ اس کا بھول جانا اس شریعت میں خلل اندازی کے مترادف ہے۔ اگر آپ یہ کہیں کہ بھول جانے پر تو مواخذہ نہیں ہوتا تو اس کے جواب میں ہم یہ کہیں گے کہ یہاں مراد اس کو جان بوجھ کر چھوڑے رکھنا ہے یہاں تک کہ اس سے یہ بھول ہی جائے۔ ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد صغیرہ گناہوں میں سب سے بڑا گناہ ہے بشرطیکہ ایسا (بھول جانا) اسے (قرآن مجید کو) حقیر جاننے اور (اس کی) قلتِ تعظیم کی وجہ سے نہ ہو۔ (أو آية) یہاں ''أو'' نوع بیان کرنے کے لیے ہے۔ (أوتيها رجل) یعنی کسی شخص نے اسے سیکھا اور اسے زبانی یاد کیا اور پھر اسے بھول گیا۔ یہ حدیث ضعیف ہے۔ صحیح دلائل سے ثابت ہے کہ اس سے بڑے گناہ بھی ہیں جیسے شرک، والدین کی نافرمانی اور جھوٹی گواہی۔