البارئ
(البارئ): اسمٌ من أسماء الله الحسنى، يدل على صفة (البَرْءِ)، وهو...
حسن بن علی رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے وتر میں پڑھنے کے لیے چند کلمات سکھائے۔ ابن عباس کہتے ہیں کہ اس سے مراد وتر کی نماز میں پڑھی جانے والی قنوت ہے۔(جو کہ یہ ہیں): ''اللهم اهدني فيمن هديت، وَعَافِنِي فِيمَنْ عَافَيْتَ، وَتَوَلَّنِي فِيمَنْ تَوَلَّيْتَ، وبارك لي فِيمَا أَعْطَيْتَ، وَقِنِي شَرَّ مَا قَضَيْتَ، إِنَّكَ تَقْضِي وَلَا يُقْضَى عَلَيْكَ، وإنه لَا يَذِلُّ مَنْ وَالَيْتَ، وَلَا يَعِزُّ مَنْ عَادَيْتَ، تَبَارَكْتَ رَبَّنَا وَتَعَالَيْتَ''۔ ترجمہ: ’’اے اللہ! مجھے ان لوگوں میں (شامل کرکے) ہدایت دے جنھیں تو نے ہدایت بخشی، مجھے ان لوگوں میں(شامل کرکے) عافیت عطا فرما جن کو تو نے عافیت عطا کی، میری نگرانی فرما ان لوگوں میں (شامل کرکے) جن کا تونگراں بنا، اور جو تو نے دیا ہے اس میں میرے لیے برکت عطا فرما، اورجس کا تو نے فیصلہ فرما دیا ہے اس کی برائی سے مجھے بچا، اس لیے کہ تو ہی فیصلہ کرتا ہے، تیرے خلاف کوئی فیصلہ نہیں کیا جا سکتا، اور تو جس سے دوستی کرے وہ ذلیل نہیں ہو سکتا اور جس سے تو دشمنی کرے اسے کوئی عزت نہیں دے سکتا۔ اے ہمارے رب! تو برکت والا اور بلند و بالا ہے۔‘‘امام نسائی کی روایت میں ہے کہ آپ ﷺ نے آخر میں کہا: ’’وصلى الله على النبي محمد‘‘۔ (اور نبی محمد پر اللہ کی رحمت ہو)۔
یہ حدیث بہت خوبصورت جملوں پر مشتمل ہے جن کو مسلمان اپنی نماز وتر میں قیام کی حالت میں ادا کرتا ہے۔ان کا یہ کہنا: ’’أقولهن‘‘ (میں یہ کہوں) یعنی میں ان کلمات کے ساتھ دعا کروں۔ اور یہ کہنا کہ: ’’في قنوت الوتر‘‘ (قنوت وتر میں)اور ایک روایت میں ہے: ’’في الوتر‘‘ (وتر میں)۔ قنوت کا کئی معانی پر اطلاق ہوتا ہے جب کہ یہاں پر نماز وتر میں قیام کی ایک مخصوص حالت میں دعا کرنا مراد ہے۔ ’’اللهم اهدني‘‘ (یا اللہ مجھے ہدایت دے) یعنی مجھے ہدایت پر ثابت قدم فرما، یا مزید اسبابِ ہدایت عطا فرما۔ ’’فيمن هديت‘‘ (ان لوگوں کے ساتھ جن کو تو نے ہدایت دی) یعنی جن کو ہدایت سے سرفراز کیا، یا جن کو تونے انبیاء اور اولیاء میں سے ہدایت دیا جیسا کہ سلیمان علیہ السلام نے فرمایا: ’’وأدخلني برحمتك في عبادك الصالحين‘‘ (کہ مجھے اپنی رحمت سے نیک بندوں میں داخل فرما)۔ یہ قول: ’’وعافني‘‘ (مجھے عافیت عطا فرما) یعنی ایسی عافیت کا معاملہ فرما جس سے برائی دور رہے۔ رسول اللہﷺ کا یہ قول کہ: ’’وتولني‘‘ (یعنی میرا نگہباں ہوجا) سے مُراد میرے معاملے کا والی بن جا اور اس کی اصلاح فرما دے۔ ’’فيمن توليت‘‘ (جن کا تو نگراں بنا) یعنی جن کےمعاملات کا تو والی بن گیا ہے اور مجھے میرے بھروسے پر نہ چھوڑنا۔ امام مظہر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: جس ذات سے والی بننے کی التجا کی جا رہی ہے، اُس کی یہ نگرانی اسی وقت ملتی ہے جب وہ (اللہ) اپنے اُس بندے سے محبت کرے، اس کی اور اس کے معاملات کی حفاظت کرے۔ یہ قول: ’’وبارك‘‘ (اور برکت دے) یعنی خیرِ کثیر۔ ’’لي’’ (میرے لیے) یعنی جو میرے لیے نفع مند ہو۔ ’’فيما أعطيت‘‘ (جو تو نے مجھے عطا کیا) یعنی جو کچھ بھی تو نے مجھے عمر، مال، علم اور اعمال کی شکل میں عنایت کیا ہے۔ آپ ﷺ کا یہ فرمان: ’’وقني‘‘ (مجھے بچا لے) یعنی مجھے محفوظ فرما دے۔ ’’شر ما قضيت‘‘ (اس شر سے جس کا تونے فیصلہ کر لیا ہے) یعنی جس شر کا تو نے فیصلہ کر لیا اور اسے میرے حق میں مقدر کر دیا ہے، یا پھر تیرے فیصلے سے جو شر پہنچے گا۔اس میں اعتراض کیا جاتا ہے کہ اس دعا میں اللہ تعالیٰ کے فیصلے اور جو اس نے بندے کے لیے مقدر کر دیا ہے جس کو وہ اچھا نہیں سمجھتا اس سے بچاؤ اور تحفظ کا تقاضا کیا گیا ہے۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ ظاہری اسباب اور آلات کے اعتبار سے جو کہ واقع ہونے والے فیصلوں سے وابستہ ہوتے ہیں اور جس کی وجہ سے ختم ہونے اور عارضی طور پر باقی رہنے کا اعتبار کیا جاتا ہے۔ ’’تقضي‘‘ (تو فیصلہ کرے) یعنی جس کو تو مقدر کر دے یا اپنے جس ارادے کا حکم دے دے۔ ’’ولا يُقْضَى عليك‘‘ (تیرے خلاف کوئی فیصلہ نہیں کیا جا سکتا) مطلب تیرے خلاف کوئی حکم جاری نہیں کیا جا سکتا، نہ ہی تیرے حکم کا پیچھا کیا جا سکتا ہے۔ تجھ پر کوئی چیز واجب نہیں ہاں اگر تو خود اپنے وعدے کے مطابق اپنے اوپر جس چیز کو لازم کر لے۔ (إنه) (بے شک وہ) یعنی اس کی شان۔ (لا يذِلُّ) (ذلیل نہیں) یعنی وہ ذلیل نہیں ہو سکتا۔(من واليت) (جس کو تو دوست بنالے) موالات(دوستی) معادات (دشمنی) کی ضد ہے۔ یہ ’’جس سے تیری دشمنی ہوجائے اسے کوئی عزت نہیں دے سکتا‘‘ سے مقابلے کے طور پر وارد ہے، جیسا کہ بعض روایات میں موجود ہے۔ اس کا معنی یہ بھی ہے کہ جن کو تو نے اپنا دوست بنا لیا ہے ان کو آخرت میں تو ذلیل نہیں کرے گا۔ یا پھر مطلقاً وہ دنیا وآخرت دونوں میں(ذلت سے دور رہیں گے) اور انھیں جو آزمائش میں ڈالا گیا اور ان پر جو ذلت و اہانت مسلط کی گئی تو یہ ظاہری اعتبار سے ہے، کیوں کہ یہ آزمائش اللہ اور اس کے اولیاء کے نزدیک رفعت وبلندی کی انتہا ہے، اور انہیں کا اعتبار ہے۔ اسی بنا پر انبیائے کرام علیہم الصلاۃ و السلام عجیب و غریب آزمائشوں میں مبتلا کیے گیے جو مشہور ومعروف ہے (لہذا اس کا یہ مطلب نہیں کہ آزمائش میں ڈال کر اللہ نے ان کی عزت میں کمی کی تھی، اس لیے کہ اللہ اپنے برگزیدہ بندوں کے ساتھ ایسا نہیں کرسکتا)۔ پھریہ حدیث اس قول کے ساتھ ختم ہوتی ہے ’’تباركت‘‘ (تو بابرکت ہے) یعنی دنیا و آخرت میں خیر کثیر تیرے پاس ہی ہے۔ ’’ربَّنا‘‘ (ہمارے رب) یعنی اے ہمارے رب! ’’وتعاليت‘‘ (تو بلند ہے) یعنی تو اپنی عظمت کے اعتبار سے عظیم تر ہے اور کونین میں رہنے والوں پر تیری قدرت اور قہر کا ظہور وغلبہ ہے اور تو ہر قسم کی مشابہت سے بالا تر ہے۔