البحث

عبارات مقترحة:

الودود

كلمة (الودود) في اللغة صيغة مبالغة على وزن (فَعول) من الودّ وهو...

السبوح

كلمة (سُبُّوح) في اللغة صيغة مبالغة على وزن (فُعُّول) من التسبيح،...

الوهاب

كلمة (الوهاب) في اللغة صيغة مبالغة على وزن (فعّال) مشتق من الفعل...

براء بن عازب رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ کے ساتھ انصار کے ایک شخص کے جنازے میں نکلے، ہم قبر کے پاس پہنچے، وہ ابھی تک تیار نہ تھی، تو رسول اللہ بیٹھ گئے اور ہم بھی آپ کے اردگرد بیٹھ گئے گویا ہمارے سروں پر چڑیاں بیٹھی ہیں، آپ کے ہاتھ میں ایک لکڑی تھی، جس سے آپ زمین کرید رہے تھے، پھر آپ نے سر اٹھایا اور فرمایا: ”قبر کے عذاب سے اللہ کی پناہ طلب کرو“ اسے دو بار یا تین بار فرمایا، ایک روایت میں اتنا اضافہ ہے: ”اور وہ (میت) ان کے جوتوں کی آواز سن رہا ہوتا ہے جب وہ پیٹھ پھیر کر لوٹتے ہیں، اس وقت اس سے پوچھا جاتا ہے: اے فلاں! تمہارا رب کون ہے؟ تمہارا دین کیا ہے؟ اور تمہارا نبی کون ہے؟“ ہناد کی روایت کے الفاظ ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کے پاس دو فرشتے آتے ہیں، اسے بٹھاتے ہیں اور اس سے پوچھتے ہیں: تمہارا رب کون ہے؟ تو وہ کہتا ہے: میرا رب اللہ ہے۔ پھر وہ دونوں اس سے پوچھتے ہیں: تمہارا دین کیا ہے؟ وہ کہتا ہے: میرا دین اسلام ہے۔ پھر وہ دونوں اس سے پوچھتے ہیں: یہ کون ہے جو تم میں بھیجے گئے تھے؟ وہ کہتا ہے: وہ اللہ کے رسول ہیں۔ پھر وہ دونوں اس سے کہتے ہیں: تمہیں یہ کہاں سے معلوم ہوا؟ وہ کہتا ہے: میں نے اللہ کی کتاب پڑھی اور اس پر ایمان لایا اور اس کو سچ سمجھا“ جریر کی روایت میں یہاں پر یہ اضافہ ہے: ”اللہ تعالیٰ کے قول «يثبت الله الذين آمنوا» سے یہی مراد ہے“ (پھر دونوں کی روایتوں کے الفاظ ایک جیسے ہیں) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پھر ایک پکارنے والا آسمان سے پکارتا ہے: میرے بندے نے سچ کہا لہٰذا تم اس کے لیے جنت کا بچھونا بچھا دو، اور اس کے لیے جنت کی طرف کا ایک دروازہ کھول دو، اور اسے جنت کا لباس پہنا دو“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: ”پھر جنت کی ہوا اور اس کی خوشبو آنے لگتی ہے، اور تا حد نگاہ اس کے لیے قبر کشادہ کر دی جاتی ہے“۔ اور رہا کافر تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی موت کا ذکر کیا اور فرمایا: ”اس کی روح اس کے جسم میں لوٹا دی جاتی ہے، اس کے پاس دو فرشتے آتے ہیں، اسے اٹھاتے ہیں اور پوچھتے ہیں: تمہارا رب کون ہے؟ وہ کہتا ہے: ہا ہا! مجھے نہیں معلوم، وہ دونوں اس سے پوچھتے ہیں: یہ آدمی کون ہے جو تم میں بھیجا گیا تھا؟ وہ کہتا ہے: ہائے ہائے! مجھے نہیں معلوم، پھر وہ دونوں اس سے پوچھتے ہیں: تمہارا دین کیا ہے؟ وہ کہتا ہے: ہائے ہائے! مجھے نہیں معلوم، تو پکارنے والا آسمان سے پکارتا ہے: اس نے جھوٹ کہا، اس کے لیے جہنم کا بچھونا بچھا دو اور جہنم کا لباس پہنا دو، اور اس کے لیے جہنم کی طرف دروازہ کھول دو، تو اس کی تپش اور اس کی زہریلی ہوا (لو) آنے لگتی ہے اور اس کی قبر تنگ کر دی جاتی ہے یہاں تک کہ اس کی پسلیاں ادھر سے ادھر ہو جاتی ہیں“ جریر کی روایت میں یہ اضافہ ہے: ”پھر اس پر ایک اندھا گونگا (فرشتہ) مقرر کر دیا جاتا ہے، اس کے ساتھ لوہے کا ایک گرز ہوتا ہے اگر وہ اسے کسی پہاڑ پر بھی مارے تو وہ بھی خاک ہو جائے، چنانچہ وہ اسے اس کی ایک ضرب لگاتا ہے جس کو مشرق و مغرب کے درمیان کی ساری مخلوق سوائے آدمی و جن کے سنتی ہے اور وہ مٹی ہو جاتا ہے“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: ”پھر اس میں روح لوٹا دی جاتی ہے“۔

شرح الحديث :

براء بن عازب رضی اللہ عنہ نقل کرتے ہیں کہ وہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک انصاری شخص کے جنازے میں نکلے، دفن سے پہلے وہ قبر پر پہنچے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھ گئے اور صحابہ بھی آپ کے ارد کے گرد خاموش بیٹھ گئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہیبت کی وجہ سے وہ باتیں نہیں کرتے تھے، آپ کے ہاتھ میں ایک لکڑی تھی جس کے ذریعے آپ زمین کُرید رہے تھے جیسے ایک مہموم اور فکر مند آدمی کرتا ہے۔ آپ نے اپنا سر اٹھایا اور فرمایا تم اللہ تعالیٰ سے قبر کے عذاب سے بچاؤ اور چھٹکارا مانگو، آپ نے یہ دو یا تین مرتبہ فرمایا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا کہ مُردہ جنازا خوان کی قدموں کی آہٹ سنتا ہے جب وہ واپس لوٹتے ہیں۔ اس وقت اس کے پاس دو فرشتے آتے ہیں اور اس کو بٹھا دیتے ہیں اور اس سے کہتے ہیں تمہارا رب کون ہے؟ وہ کہتا ہے اللہ میرا رب ہے۔ فرشتے کہتے ہیں تمہارا دین کیا ہے؟ وہ کہتا ہے میرا دین اسلام ہے۔ فرشتے کہتے ہیں یہ شخص کون ہے جسے تمہاری طرف بھیجا گیا ہے؟ وہ کہتا ہے وہ اللہ کے رسول ہیں، فرشتے کہتے ہیں تم اس کے بارے میں کیسے جانتے ہو؟ وہ کہتا ہے میں نے اللہ کی کتاب پڑھی، تو میں اس پر ایمان لایا اور اس کی تصدیق کی۔ مُردے کی زبان پر اس جواب کا جاری ہونا وہ ثابت قدمی ہے جسے اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں بیان فرمایا ﴿يثبت الله الذين آمنوا بالقول الثابت﴾ [إبراهيم: 27] الآية۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا آسمان سے ایک منادی آواز دیتا ہے کہ میرے بندے نے جو کہا سچ کہا۔ یہ دنیا میں اسی عقیدے پر قائم تھا، چنانچہ وہ اکرام کا مستحق ہے۔ اس کے لئے جنت کا فرش بنا لو، جنتیوں کا لباس پہنا دو اور جنت کا دروازہ اس کے لئے کھول دو، سو جنت کا دروازہ اس کے لئے کھول دیا جائے گا جس سے ہوا اور پاکیزہ خوشبو آئے گی۔ اس کے لئے قبر تاحدِ نگاہ وسیع کردی جائے گی۔ جہاں تک کافر کا تعلق ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی موت کی حالت، اس کی سختی اور دفن کے بعد جسم میں اس کی روح کا لوٹنا بیان کیا ہے، دو فرشتے آ کر اسے بٹھاتے ہیں اور کہتے ہیں تمہارا رب کون ہے؟ وہ حیران ہو کر کہتا ہے ہائے ہائے میں نہیں جانتا، فرشتے کہتے ہیں تمہارا دین کیا ہے؟ وہ کہتا ہے ہائے ہائے میں نہیں جانتا، فرشتے کہتے ہیں اس شخص کے بارے میں تم کیا کہتے ہو جس کو تمہاری طرف بھیجا گیا آیا وہ نبی ہے یا نہیں؟ وہ کہتا ہے ہائے ہائے میں نہیں جانتا، آسمان سے ایک منادی آواز دیتا ہے کہ کافر نے جھوٹ بولا، یہ اس کے ایمان نہ لانے اور اس سے انکار کرنے کی وجہ سے ہے۔ اس لئے کہ اللہ کا دین اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت زمین کے مشرق و مغرب میں ظاہر اور غالب تھی۔ اس کے لئے جہنم کا فرش بچھا دو، اسے آگ کا لباس پہننا دو، اس کے لئے جہنم کا دروازہ کھول دو، جہاں سے اسے آگ کی گرمی پہنچے گی اور اس کی قبر اس پر اتنی تنگ ہوجائے گی کہ اس کی پسلیاں آپس میں گھس جائیں گی اوروہ اپنی اصل ہیئت جس پر وہ تھی ختم ہوجائے گی، پھر اس پر ایک اندھا اور گونگا فرشتہ مسلط کیا جائے گا، اس کے پاس لوہے کا ایک بڑا ہتھوڑا ہوگا، اگر اس کو پہاڑ پر مارا جائے تو پہاڑ ریزہ ریزہ ہوجائے، اس کے ساتھ ایک ضرب مارے گا جسے مشرق و مغرب کے درمیان جنات و انسانوں کے سوا ہر چیز سنے گی، وہ مٹی مٹی ہو جائے گا، پھر اس میں روح دوبارہ لوٹائے جائے گی تاکہ وہ عذاب چھکے گا اور قبر میں اسے مسلسل عذاب ہوتے رہے گا۔


ترجمة هذا الحديث متوفرة باللغات التالية