الحكيم
اسمُ (الحكيم) اسمٌ جليل من أسماء الله الحسنى، وكلمةُ (الحكيم) في...
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا : ’’جب فجر طلوع ہو گئی، تو تہجد (قیام اللیل) اور وتر کا سارا وقت ختم ہو گیا؛ لہٰذا فجر کے طلوع ہونے سے پہلے وتر پڑھ لیا کرو‘‘۔
’’جب فجر طلوع ہو گئی، تو تہجد (قیام اللیل) اور وتر کا سارا وقت ختم ہو گیا" اس کا مطلب یہ ہے کہ فجر طلوع ہونے کی وجہ سے صلاۃ اللیل (تہجد کی نماز) اور وتر کا وقت ختم ہو جاتا ہے۔ آپ کا قول: "الوتر" اصل میں وتر کی نماز قیام اللیل ہی کا ایک حصہ ہے، لیکن اسے صلاۃ اللیل پر عطف اس کی تاکید اور اس کی اہمیت کے بیان کے لیے کیا گیا ہے۔ "لہٰذا فجر کے طلوع ہونے سے پہلے وتر پڑھ لیا کرو" اس کا مطلب ہے طلوعِ فجر سے پہلے وتر پڑھ لیا کرو؛ کیوں کہ اگر فجر طلوع ہو گئی، تو وتر کی نماز مشروع نہیں رہے گي۔ جیسا کہ ابن حبان نے روایت کیا ہے: ‘‘جس نے صبح کو پالیا اور وتر نہیں پڑھی، اس کا وتر نہیں ہے’’ وہ اس کی قضا دن میں جفت کی شکل میں کرے گا، اگر کسی عذر، تھکاوٹ، نیند یا بھول کی وجہ سے فوت ہوئی ہے۔ چنانچہ اگر اس کی عادت تین رکعت وترپڑھنےکی ہے، تو دن میں چار رکعت پڑھے گا، اگر پانچ رکعت پڑھنے کی عادت ہے، تو دن میں چھ رکعت پڑھے گا اور اسی طرح حسبِ عادت اضافہ کرتا جائے گا۔ جیسا کہ صحیح مسلم میں عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے: "اگر کبھی بیماری وغیرہ کی وجہ سےنبی ﷺ کا قیام اللیل فوت ہو جاتا، تو دن میں بارہ رکعت پڑھ لیتے‘‘۔