الوتر
كلمة (الوِتر) في اللغة صفة مشبهة باسم الفاعل، ومعناها الفرد،...
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک عورت نے نبی ﷺ سے کہا کہ اے اللہ کے رسول ﷺ! میرا یہ بیٹا ہے میرا پیٹ اس کے لیے برتن تھا، اور میری چھاتی اس کے لیے مشکیزہ، اور میری گود اس کے لیے جھولا ہے، اور اس کے باپ نے مجھے طلاق دے دی ہے، اور وہ چاہتا ہے کہ اسے مجھ سے چھین لے، آپ ﷺ نے فرمایا ’’تو اس کی پرورش کی زیادہ حق دار ہے جب تک کہ تو کسی سے نکاح نہ کرے‘‘۔
اس حدیث میں ہے کہ ایک عورت نے نبی ﷺ سے شکایت کی جب اس کے شوہر نے اسے طلاق دے دی، اور اس نے ارادہ کیا کہ اس کے لڑکے کو اس سے چھین لے، اس عورت نے کچھ ایسے اوصاف بیان کیے تاکہ وہ بچہ اس کے پاس رہ سکے، چنانچہ اس نےکہا کہ میرا یہ بیٹا ہے میرا پیٹ اس کے لئے برتن تھا جب وہ پیٹ کا بچہ تھا، اور اس کی چھاتی اس کی پیدائش کے بعد اس کے لیے مشکیزہ، اوراس کی گود جس جگہ اسے سمیٹ کر رکھتی تھی اس کے لیے جھولا تھا، چنانچہ نبیﷺ نے اس کی ان باتوں کا اقرار کیا، اور اس سے کہا ’’ تو اس کی پرورش کی زیادہ حق دار ہے جب تک کہ تو کسی سے نکاح نہ کرے، ، ۔اور جب تو کسی سے نکاح کرلے گی تو تمہارا حق اس پر نہیں رہے گا، بلکہ اس کا باپ اس کا زیادہ حق دار ہوگا، ، ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عورت جب شادی کر لے گی اور اس کا بیٹا اس کے ساتھ رہے گا تو ایسی صورت میں اس نئے شوہر کے زیر پرورش ہو جائے گا، چنانچہ اس پر احسان کرے گا، جس کی وجہ سے یہ بچہ اس سے اپنے باپ کے مقابلے زیادہ وابستہ ہو جائے گا، اور بسا اوقات دوسری خرابیاں بھی جنم لے سکتی ہیں۔