الحفيظ
الحفظُ في اللغة هو مراعاةُ الشيء، والاعتناءُ به، و(الحفيظ) اسمٌ...
اشعث بن قیس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میرے اور ایک شخص کے درمیان ایک کنویں کو لے کر جھگڑا تھا، چنانچہ ہم دونوں اس مقدمے کے فیصلے کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، تو آپ ﷺ نے مجھ سے فرمایا: ”تم دو گواہ لاؤ، ورنہ اس کی قسم پر فیصلہ ہوگا“۔ میں نے عرض کیا: وہ تو قسم کھالے گا اور کچھ پروا نہ کرے گا! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص جھوٹی قسم اس لیے کھائے کہ اس کے ذریعے کسی مسلمان کے مال کو ہتھیا لے اور اس کی نیت بری ہو، تو وہ اللہ تعالیٰ سے اس حالت میں ملے گا کہ اللہ اس پر نہایت ہی غضبناک ہو گا“۔
اس حدیث میں اشعث بن قیس رضی اللہ عنہ کے قصہ بیان ہوا ہے کہ جب ان کا اور ان ایک شخص سے ایک کنویں کو لے کر جھگڑا پیدا ہوگیا، تو وہ اس جھگڑے کے تصفیے کے لیے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ ﷺ نے فرمایا: ”یا تم دو گواہ لاؤ، ورنہ اس کی قسم پر فیصلہ ہوگا!“ اشعث بن قیس رضی اللہ عنہ کا گمان تھا کہ ان کا مخالف قسم کھالے گا اور اسے اس کے گناہ کی چنداں پروا نہ ہوگی۔ انھوں نے رسول اللہ ﷺ سے اس امکان کا اظہار بھی کردیا۔ چنانچہ نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا: ”جو شخص جھوٹی قسم اس لیے کھائے کہ اس کے ذریعے کسی مسلمان کے مال کو ہتھیا لے...“۔ اس حدیث میں ان لوگوں کے لیے سخت قسم کی وعید ہے، جو کسی شخص کا مال ناحق ہڑپ لیتے ہیں، وہ اپنے گناہ آمیز جھگڑے اور جھوٹی قسم کے ذریعے اس پر قبضہ کرتے ہیں۔ ایسے لوگ جب اللہ تعالیٰ سے ملیں گے، تو وہ ان پر سخت غضب ناک ہوگا اور جس پر اللہ تعالیٰ کا غضب نازل ہوگیا، اس کی ہلاکت میں شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں رہتی۔