الوارث
كلمة (الوراث) في اللغة اسم فاعل من الفعل (وَرِثَ يَرِثُ)، وهو من...
نواس بن سمعان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "جب اللہ تعالی کسی کام کے سلسلے میں وحی کا ارادہ فرماتا ہے، تو بذریعہ وحی کلام کرتا ہے۔ اس پر اللہ کے خوف کی وجہ سے آسمانوں پر شدید لرزہ طاری ہو جاتا ہے۔ یا پھر آپ ﷺ نے فرمایا کہ کپکپی طاری ہو جاتی ہے۔ جب آسمان والے اس وحی کو سنتے ہیں، تو ان پر غشی طاری ہو جاتی ہے اور وہ اللہ کے حضور سجدہ ریز ہو جاتے ہیں۔ پھر سب سے پہلے جبریل علیہ السلام اپنا سر اٹھاتے ہیں۔ اللہ تعالی اپنی وحی پر مشتمل جو کلام چاہتا ہے، ان سے فرماتا ہے۔ پھر جبریل کا گزر فرشتوں کے پاس سے ہوتا ہے۔ وہ جب بھی کسی آسمان پر سے گزرتے ہیں، تو اس آسمان کے فرشتے ان سے پوچھتے ہیں: "اے جبریل! ہمارے رب نے کیا فرمایا؟"۔ جبریل علیہ السلام جواب دیتے ہیں: "اللہ نے حق ہی فرمایا اور وہ بلند و برتر ہے"۔ اس پر وہ سب فرشتے اسی طرح کہتے ہیں، جس طرح جبریل علیہ السلام نے کہا ہوتا ہے، یہاں تک کہ جبریل علیہ السلام وحی لے کر وہاں تک پہنچ جاتے ہیں، جہاں تک کا اللہ نے انھیں حکم دیا ہو تا ہے"۔
اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ ہمیں بتا رہے ہیں کہ اللہ عز و جل جب وحی کے ارادے سے کلام فرماتا ہے، تو اس سے آسمانوں پر لرزہ اور کپکپی اور اللہ کے خوف و جلال کی وجہ سے فرشتوں پر غشی طاری ہو جاتی ہے۔ پھر ان میں سے سب سے پہلے جبرئیل علیہ السلام کو ہوش آتا ہے اور اللہ تعالی جو چاہتا ہے، ان سے کلام فرماتا ہے۔ پھر جبرئیل علیہ السلام وحی وہاں لے جاتے ہیں، جہاں اللہ چاہتا ہے۔ وہ جب بھی کسی آسمان پر سے گزرتے ہیں، تو اس آسمان والے (فرشتے) ان سے پوچھتے ہیں کہ رب عز و جل نے کیا کلام فرمایا؟ اس پر جبرئیل علیہ السلام انہیں جواب دیتے ہیں کہ اللہ نے حق اور سچ بات فرمائی اور وہ ہر شے سے برتر اور ہر بڑی شے سے بلند تر ہے۔