الحفي
كلمةُ (الحَفِيِّ) في اللغة هي صفةٌ من الحفاوة، وهي الاهتمامُ...
عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ روایت سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی ﷺ کو یہ آیت پڑھتے ہوئے سنا: ’’اتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللَّهِ وَالْمَسِيحَ ابْنَ مَرْيَمَ وَمَا أُمِرُوا إِلاَّ لِيَعْبُدُوا إِلَهًا وَاحِدًا لا إِلَهَ إِلاَّ هُوَ سُبْحَانَهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ‘‘ (التوبه: 31) ترجمہ: ’’انہوں نے اپنےعلماء اور درویشوں کو اللہ کے سوا اپنا رب بنا لیا ہے اور اسی طرح مسیح ابن مریم کو بھی حالانکہ ان کو ایک معبود کے سوا کسی کی بندگی کرنے کا حکم نہیں دیا گیا تھا، وہ اللہ جس کے سوا کوئی مستحقِ عبادت نہیں، پاک ہے وہ ان مشرکانہ باتوں سے جو یہ لوگ کرتے ہیں‘‘۔ (عدی کہتے ہیں) میں نے آپ ﷺ سے کہا: ہم (زمانۂ کفر میں) ان کی عبادت تو نہیں کرتے تھے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’کیا ایسا نہیں ہوتا تھا کہ اللہ نے جو کچھ حلال قرار دیا اسے وہ حرام ٹھہرا دیتے اور تم اسے حرام سمجھنے لگتے تھے؟ اورجو کچھ اللہ نے حرام قرار دیا اسے وہ حلال ٹھہرا دیتے تھے اور تم اسے حلال سمجھنے لگتے تھے؟‘‘میں نے جواب دیا: ہاں، کیوں نہیں، ایسا ہی ہوتا تھا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’یہی تو ان کی عبادت کرنا ہے‘‘۔
جب اس جلیل القدر صحابی نے رسول اللہ ﷺ کو یہ آیت تلاوت کرتے ہوئے سنا جس میں یہودیوں اور عیسایوں کا ذکر ہے کہ انہوں نے اپنے علماء اور راہبوں کو معبود بنا لیا بایں طور کہ وہ ان کے لیے ایسے قوانین وضع کرتے جو اللہ کی شریعت کے مخالف ہوتے اور وہ اس میں ان کی اطاعت کرتے، تو انہیں اس آیت کے مفہوم کو سمجھنے میں اشکال ہوا کیونکہ ان کے خیال میں عبادت صرف سجدے وغیرہ تک محصور تھی۔ اس پر رسول اللہ ﷺ نے وضاحت فرمائی کہ یہ بھی احبار و رہبان کی عبادت ہی ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کے حکم کے برخلاف حلال کو حرام ٹھہرانے اور حرام کو حلال ٹھہرانے میں ان کی اطاعت کی جائے۔