البحث

عبارات مقترحة:

العليم

كلمة (عليم) في اللغة صيغة مبالغة من الفعل (عَلِمَ يَعلَمُ) والعلم...

الباطن

هو اسمٌ من أسماء الله الحسنى، يدل على صفة (الباطنيَّةِ)؛ أي إنه...

النصير

كلمة (النصير) في اللغة (فعيل) بمعنى (فاعل) أي الناصر، ومعناه العون...

انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا: بیماری کا ایک سے دوسرے کو لگ جانا (متعدی ہونا) اور بد شگونی لینا کوئی چیز نہیں اور مجھے فال اچھی لگتی ہے، صحابہ کرام نے پوچھا فال کیا چیز ہے؟ آپ نے فرمایا: ”اچھی بات (کا سننا اور اس سے خیر کی امید وابستہ کر لینا)“۔

شرح الحديث :

جب خیر اور بھلائی سب اللہ کی طرف سے مقدر ہیں، چنانچہ نبی نے اس حدیث میں بیماری کے بذات خود متعدی ہونے اور اسی طرح سے بدشگونی کے وجود کی نفی کی ہے نیز آپ نے اچھے شگون کا اقرار کیا ہے اور اس کی تعریف کی ہے؛ کیونکہ یہ اللہ کے ساتھ اچھا گمان ہے اور ہمتوں کو ابھارنے والی ہے کہ وہ اپنی مراد کو حاصل کرلیں، توہم پرستی اور مایوسی کے برعکس ہے، حاصل کلام! شگون اور بدشگون کے درمیان کئی اعتبار سے فرق ہے۔ ان میں سب سے اہم یہ ہے: 1۔ فال ان چیزوں میں ہوتا ہے جو کہ خوش کر دیں جب کہ بدشگونی صرف بری چیزوں میں ہوتا ہے۔ 2. نیک شگون میں اللہ کے ساتھ اچھا گمان ہوتا ہے اور بندہ کو اللہ کے ساتھ اچھا گمان رکھنے کا حکم دیا گیا ہے، جب کہ بد شگونی میں اللہ کے ساتھ بد گمانی ہے اور بندے کو اللہ کے ساتھ بد گمانی کرنے سے منع کیا گیا ہے۔


ترجمة هذا الحديث متوفرة باللغات التالية