الحافظ
الحفظُ في اللغة هو مراعاةُ الشيء، والاعتناءُ به، و(الحافظ) اسمٌ...
عائذ بن عمرو رضی اللہ عنہ عبیداللہ بن زیاد کے پاس گئے اور فرمایا : میرے بیٹے! میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: " بدترین راعی، سخت گیر اور ظلم کرنے والا ہوتا ہے"۔ تو تم اس سے بچنا کہ تم ان میں سے ہوجاؤ۔ اس نے کہا : آپ بیٹھیے، آپ تو اصحاب محمد ﷺ کا تلچھٹ ہو، انھوں نے کہا: کیا اصحاب رسول ﷺ میں بھی تلچھٹ ہوتا ہے؟ بے شک تلچھٹ تو ان کے بعد یا ان کے علاوہ دوسروں میں ہوگا۔
عائذ بن عمرو رضی اللہ عنہ عبید اللہ بن زیاد کے پاس آئے، اس وقت عبید اللہ عراق کا امیر تھا۔ وہ اپنے باپ کے بعد وہاں کا امیر بنا تھا۔ عائذ بن عمرو رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو کہتے ہوئے سنا کہ بدترین راعی، سخت گیر اور ظلم کرنے والا ہوتا ہے۔ "الحُطَمَة" یعنی اونٹوں کو ہنکانے اور لانے لے جانے میں سختی کرنے والا، جو بعض کو بعض سے مڈ بھیڑ کرواتا ہے اور سختی برتتا ہے۔ آپ ﷺ نے یہ بُرے والی کے لیے بطور مثال بیان کیا ہے۔ اس سے مُراد "بد خلق" ہے، جو دوسروں پر ظلم کرتا ہے، نرمی اور رحم کا رویہ روا نہیں رکھتا۔ (فإياك أن تكون منهم) یہ عائذ رضی اللہ عنہ کا قول ہے، جو انھوں نے ابنِ زیاد سے نصیحت کے طور پر کہا۔ ابنِ زیاد نے جواب میں کہا: (إنما أنت من نخالتهم) یعنی تم صاحب فضل، ذی علم اور اہلِ مرتبہ صحابہ میں سے نہیں ہو، بلکہ کم مرتبہ صحابہ میں سے ہو۔ "النخالة" آٹے کے بھوسے سے استعارہ ہے، جو اس کے چھلکے ہوتے ہیں، النخالة، الحقالة اور الحثالة ایک ہی معنیٰ میں آتے ہیں۔ جلیل القدر صحابی نے جواب میں کہا: (وهل كانت لهم نخالة إنما كانت النخالة بعدهم وفي غيرهم)۔ یہ صحابی کا بڑا عمدہ، سلیس، فصیح اور سچا کلام ہے، جسے ہر مسلمان تسلیم کرتا ہے۔ اس لیے کہ صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین سارے کے سارے تمام لوگوں میں چنندہ، امت کے سردار اور بعد والوں سے افضل ہیں۔ سب کے سب عادل اور اسوہ ہیں۔ ان میں تلچھٹ ہونے کا تصور ہی نہیں کیا جا سکتا۔ ملاوٹ تو بعد والوں کی طرف سے یا خود بعد والوں میں ہے۔