الملك
كلمة (المَلِك) في اللغة صيغة مبالغة على وزن (فَعِل) وهي مشتقة من...
ابی بن کعب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ انصار میں ایک آدمی تھا میں نہیں جانتا کہ کسی اور شخص کا گھر مسجد سے اس سے زیادہ دور تھا، اور اس سے کوئی نماز نہیں چھوٹتی تھی۔ تو اس سے کہا گیا: اگر تو ایک گدھا خرید لے جس پر تو اندھیرے میں اور گرمی کی شدت میں سوار ہو کر آیا کرے؟ اس نے کہا: مجھے یہ پسند نہیں کہ میرا گھر مسجد کے بغل میں ہو، میں تو یہ چاہتا ہوں کہ میرا مسجد کی طرف چل کر جانا اور پھر وہاں سے میرا لوٹنا، جب میں اپنے گھر والوں کی طرف لوٹوں یہ سب کچھ میرے حساب میں لکھا جائے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''اللہ نے یہ سب تیرے لیے جمع کردیا ہے۔''
مسجد کی طرف جانا اور وہاں سے واپس لوٹنا۔ اگر انسان اس سے اللہ کے یہاں اجر و ثواب کی امید رکھے تو اسے اس پر اجر دیا جائے گا۔ یہ حدیث جسے مؤلف رحمہ اللہ نے اس شخص کے قصے میں ذکر کیا ہے جس کا گھر مسجد سے دور تھا، اور وہ بہت دور سے مسجد کی طرف آتا تھا اور وہ مسجد کی طرف آتے اور وہاں سے واپس لوٹتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے ثواب کی امید رکھتا تھا۔ تو بعض لوگوں نے ان سے کہا اگر آپ ایک گدھا خرید لیں تاکہ اندھیرے میں اور گرمی کی شدت میں اس پر سوار ہو کر آیا کریں، یعنی عشاء اور فجر کی نماز کے اندھیرے میں اور سخت گرمی یعنی گرمی کے موسم میں بالخصوص حجاز میں، جہاں کی فضا بہت گرم ہوتی ہے۔ صحابی نے کہا کہ اگر میرا گھر مسجد کے پہلو میں ہو تو یہ میری خوشی کا باعث نہیں۔ یعنی وہ اس پر خوش ہے کہ اس کا گھر مسجد سے دور ہے اور وہ مسجد تک پیدل چل کر آتا ہے اور پیدل واپس لوٹتا ہے۔ اور اسے اپنے گھر کے مسجد سے قریب ہونے پر خوشی نہیں ہے۔ کیوں کہ اگر اس کا گھر مسجد سے قریب ہوتا تو اس کے لیے ان قدموں کی نیکی نہیں لکھی جاتی۔ اور اس نے یہ بیان کیا کہ وہ مسجد جاتے آتے ان قدموں پر اللہ کے ہاں نیکیوں کی امید رکھتا ہے۔ اس پر اللہ کے نبی ﷺ نے فرمایا: اللہ نے یہ سب ثواب تیرے لیے جمع کردیا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ مسجد تک آتے جاتے جس چیز کی تم امید رکھتے ہو، اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے اسے لکھ دیا ہے۔ ایک اور روایت میں ہے: (إن لك ما احتسبت) یعنی بلا شبہ تیرے لیے وہ ثواب ہے جس کا تو نے ارادہ کیا