الرقيب
كلمة (الرقيب) في اللغة صفة مشبهة على وزن (فعيل) بمعنى (فاعل) أي:...
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھ سے رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ مجھے قرآن سناؤ۔ میں نے کہا اے اللہ کے رسولﷺ! میں آپ کو قرآن سناؤں جب کہ آپ پر ہی نازل ہوا ہے؟ آپﷺ نے فرمایا: میں چاہتا ہوں کہ اپنے علاوہ کسی اور سے قرآن سنوں۔ میں نے آپ کے سامنے سورہ نساء کی تلاوت کی یہاں تک میں جب اس آیت پر پہنچا (فَكَيْفَ إِذَا جِئْنَا مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ بِشَهِيدٍ وَجِئْنَا بِكَ عَلَى هَؤُلاَءِ شَهِيدًا) (پس کیا حال ہوگا جس وقت کہ ہر امت میں سے ہم ایک ایک گواه لائیں گے اور پھر آپ کو ان لوگوں پر گواه بنا کر لائیں گے) تو آپ نے فرمایا: ’’اب بس کرو‘‘ میں نے آپ کی طرف دیکھا تو آپ ﷺ کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔
نبی کریمﷺ نے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مطالبہ کیا کہ ان کے سامنے قرآن کی تلاوت کریں۔تو عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے جواب دیا : اے اللہ کے رسولﷺ! میں آپ کے سامنے کیسے تلاوت کروں جب کہ قرآن تو آپ پر نازل ہوا ہے، آپ مجھ سے زیادہ جانتے ہیں۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا: میں اپنے علاوہ کسی اور سے سننا چاہتا ہوں۔ انھوں نے آپ کے سامنے سورہ نساء کی تلاوت فرمائی اور جب اس آیت کریمہ پر پہنچے (فَكَيْفَ إِذَا جِئْنَا مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ بِشَهِيدٍ وَجِئْنَا بِكَ عَلَى هَؤُلاَءِ شَهِيدًا) (پس کیا حال ہوگا جس وقت کہ ہر امت میں سے ہم ایک ایک گواه لائیں گے اور پھر آپ کو ان لوگوں پر گواه بنا کر لائیں گے) یعنی آپ کی کیا حالت ہو گی اور ان کی کیا حالت ہو گی؟ نبی کریمﷺ نے فرمایا: ’’اب بس کرو‘‘ یعنی تلاوت سے رک جاؤ۔ ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ’’میں نے جب آپﷺ کی طرف دیکھا تو اپنی امت سے محبت کی وجہ سے آپ کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔‘‘