السيد
كلمة (السيد) في اللغة صيغة مبالغة من السيادة أو السُّؤْدَد،...
ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ ”جس رات مجھے معراج کرائی گئی، اس رات میں ابراہیم علیہ السلام سے ملا، ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا: ”اے محمد! اپنی امت کو میری جانب سے سلام کہنا اور انہیں بتانا کہ جنت کی مٹی بہت اچھی (زرخیز) ہے، اس کا پانی بہت میٹھا ہے، وہ چٹیل میدان ہے اور اس کی باغبانی ”سُبْحَانَ اللَّهِ وَالْحَمْدُ لِلَّهِ وَلَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَاللَّهُ أَكْبَرُ“ سے ہوتی ہے“۔
آپ ﷺ فرما رہے ہیں کہ انہوں نے اسراء اور معراج کی رات میں حضرت ابراہیم علیہ السلام سے ملاقات کی، انہوں نے فرمایا کہ اپنی امت کو میرا سلام عرض کرنا اور کہنا کہ جنت کی مٹی پاک ہے، دوسری احادیث میں آتا ہے کہ اس کی مٹی ’زعفران‘ ہے، جیسا کہ ترمذی کی روایت میں ہے کہ صحابہ نے آپ ﷺ سے جنت کے بارے میں پوچھا، آپ ﷺ نے فرمایا اس کی مٹی زعفران ہے اور امام احمد رحمہ اللہ کی روایت میں ہے کہ جنت کی مٹی ورس (ایک پیلا، خوشبودار پودا ہے جو یمن میں پایا جاتا ہے۔) اور زعفران ہے۔ "عَذْبَةُ الماء" یعنی اس کا پانی خوش ذائقہ اور شیریں ہے، قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے ”فِيهَا أَنْهَارٌ مِّن مَّاءٍ غَيْرِ آسِنٍ“ (اس میں پانی کی نہریں ہیں جو بدبو کرنے واﻻ نہیں)، [سورۃ محمد: 15] یعنی اس کا پانی تبدیل ہو کر کھارا وغیرہ نہیں ہوگا۔ جب جنت کی مٹی پاک اور اس کا پانی شیریں ہے، تو لامحالہ اس کے درخت بھی پاک ہوں گے اور وہ درخت پاک کلمات سے حاصل ہوں گے اور وہ باقی رہنے والی نیکیاں ہیں۔ " وأنها قِيعَانٌ " قِيعَانٌ جمع ہے ’’قاع‘‘ کی، جس کا معنی ہے ہموار زمین وسیع علاقہ۔ " وأن غِراسَها " یعنی اس چٹیل میدان میں جو بویا جائے وہ ”سُبْحَانَ اللَّهِ وَالْحَمْدُ لِلَّهِ وَلَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَاللَّهُ أَكْبَرُ“ ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اس کے درخت پاکیزہ کلمات یعنی تسبیح، حمد اور لا إله إلا الله کا ورد ہے۔ لہٰذا جو شخص بھی اللہ کی تسبیح، تعریف یا تہلیل بیان کرتا ہے، اس کے لیے اس کے عوض جنت میں ایک درخت لگے گا۔