الحسيب
(الحَسِيب) اسمٌ من أسماء الله الحسنى، يدل على أن اللهَ يكفي...
زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ ایک سفر میں نکلے جس میں لوگوں کو بہت تکلیف پہنچی تو عبداللہ بن ابی نے (اپنے ساتھیوں سے) کہا: ان لوگوں پر خرچ نہ کرو جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہیں یہاں تک کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے جدا اور دور ہو جائیں۔ اس نے یہ بھی کہا کہ: اگر ہم اب مدینہ لوٹ کر جائیں گے تو عزت والا وہاں سے ذلیلوں کو نکال باہر کرے گا۔ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بات کی خبر دی, تو آپ نے عبداللہ بن ابی ابن سلول کو بلا بھیجا اور اس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا تو اس نے زوردار قسم کھا کر کہا کہ اس نے ایسا نہیں کہا ہے۔ اس پر لوگوں نے کہا کہ زید نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جھوٹ کہا ہے۔ ان لوگوں کی اس بات سے میرے دل کو بہت صدمہ ہوا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے میری تصدیق کرتے ہوئے یہ آیت نازل فرمائی: «إذا جاءك المنافقون» پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بلایا تاکہ ان کے لیے مغفرت کی دعا کریں، لیکن انہوں نے اپنے سر پھیر لیے۔
زید بن ارقم رضی اللہ عنہ ذکر کرتے ہیں کہ وہ ایک سفر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے، آپ کے ساتھ اس سفر میں مومنین اور منافقین دونوں تھے۔ اس میں زادِ سفر (توشہ) کم ہونے کی وجہ سے لوگوں کو کافی تنگی اور تکلیف پیش آئی۔ چنانچہ کفر و نفاق کا سرغنہ عبداللہ بن اُبیّ بن سلول بولا: ”لاَ تُنْفِقُوا على مَنْ عند رسول الله حتى يَنْفَضُّوا“۔ [المنافقون: 7] (ترجمہ: جو لوگ رسول اللہ کے پاس ہیں ان پر کچھ خرچ نہ کرو یہاں تک کہ وه ادھر ادھر ہو جائیں) یعنی صحابہ کو کچھ بھی خرچ نہ دو تاکہ بھوکے ہوکر بکھر جائیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑ دیں۔ اس نے یہ بھی کہا: ”لَئِنْ رجعنا إلى المدينة لَيُخْرِجَنَّ الأَعَزُّ منها الأَذَلَّ “ [المنافقون: 8] (ترجمہ: اگر ہم اب لوٹ کر مدینہ جائیں گے تو عزت واﻻ وہاں سے ذلت والے کو نکال دے گا) عزت والا سے اس نے اپنے آپ کو اور اپنی قوم کو مراد لیا اور ذلت والوں سے اس نے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مراد لیا۔ زید بن ارقم رضی اللہ عنہ نے یہ سنا، تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور بتایا کہ عبداللہ بن اُبیّ بن سلول اس اس طرح کہہ رہا ہے، وہ آپ کو اس سے متنبہ کر رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے پاس پیغام بھیج کر بلوایا۔ اس نے بہت زیادہ قسمیں اٹھائیں کہ اس نے ایسا نہیں کہا۔ یہ منافقین کا طریقۂ کار ہے کہ جاننے کے باوجود وہ جھوٹی قسمیں کھاتےہیں۔ چنانچہ اس نے بھی قسم اٹھا کر کہا کہ اس نے ایسا نہیں کہا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ طریقہ تھا کہ آپ ان کی ظاہری باتوں کو قبول کر لیتے تھے اور ان کے پوشیدہ راز کو اللہ کے حوالے کردیتے تھے۔ جب اس بات کی خبر زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کو ہوئی تو ان پر یہ گراں گزرا; کیوں کہ وہ شخص اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حلف اٹھاکر اور خوب قسمیں کھاکر بری ہوگیا! چنانچہ لوگوں نے کہا کہ زید بن ارقم نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سےجھوٹ بولا ہے۔ (یعنی زید بن ارقم نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو جھوٹی خبر دی ہے) یہ بات زید پر بہت گراں گزری یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے زید رضی اللہ عنہ کی تصدیق نازل فرمائی اور اسے اپنے اس فرمان کے ذریعہ بیان فرمایا: " إذا جاءك المنافقون " یعنی سورة المنافقين نازل فرمائی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منافقین اور ان کے سردار عبداللہ بن اُبی کو بلایا تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے اس فُحش گفتگو کرنے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ سے ان کے لئے مغفرت مانگیں۔ لیکن انہوں نے تکبر کرتے ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بابت حقیر سمجھتے ہوئے کہ آپ ان کے لیے اللہ تعالیٰ کے پاس استغفار کریں، اس پیش کش سے اعراض کیا۔