المحسن
كلمة (المحسن) في اللغة اسم فاعل من الإحسان، وهو إما بمعنى إحسان...
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس نے کسی تنگدست کو مہلت دی یا اس کے قرض کو کم کردیا اسے روزِ قیامت اللہ تعالی اپنے عرش کے سائے میں جگہ دے گا جس دن سوائے اس کے سائے کے کوئی اور سایہ نہ ہو گا۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بتا رہے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا: (من أنظر معسرا) یعنی کسی غریب مقروض کو مہلت دی۔ ’إنظار‘ کا معنی ہے ایسی مہلت جس میں کسی چیز کے پورے کیے جانے کا انتظار کیا جائے۔ (أو وضع عنه) یعنی اس کا کچھ قرض معاف کر دیا ۔ ابونعیم سے مروی حدیث میں ہے ’’أو وهب له‘‘ (یعنی وہ قرض اُسے ہی دے دیا گیا۔) اس شخص کی جزاء یہ ہوگی کہ (أظله الله في ظله) یعنی اللہ حقیقی طور پر اسے اپنے عرش کے سائے تلے جگہ دے گا اور سے جنت میں داخل کرے گا۔ اللہ قیامت کے دن کی گرمی کی شدت سے اسے محفوظ رکھے گا۔ یہ بدلہ اس دن ملے گا جس دن (يوم لا ظل إلا ظله) سوائے اللہ کے سائے کے کوئی اور سایہ نہیں ہوگا۔ مہلت دینے والا اس جزا کا مستحق اس لیے ہوا کیوں کہ اس نے مقروض کو خود اپنے اوپر ترجیح دے کر اسے راحت دی چنانچہ اللہ تعالی بھی اسے راحت دے گا کیوں کہ جزا عمل ہی کی جنس سے ہوا کرتی ہے۔