القيوم
كلمةُ (القَيُّوم) في اللغة صيغةُ مبالغة من القِيام، على وزنِ...
ابو قتادہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: "جسے یہ اچھا لگتا ہو کہ اللہ اسے قیامت کے دن کی تنگی سے نجات دلائے، تو اسے چاہبے کہ تنگ دست کو مہلت دے یا پھر اس کا (کچھ یا سارا) قرض معاف کر دے۔
حدیث کا مفہوم: "من سَرَّهُ"یعنی جسے یہ بات خوش لگےاور جسے یہ پسند ہو۔"أَن يُنَجِّيَه الله من كَرْبِ يوم القيامة": یعنی اللہ تعالیٰ اسے قیامت کے دن کے مصائب اور آزمائشوں سے نجات دے۔"فَلْيُنَفِّسْ عن مُعْسِر" یعنی قرض کی ادائیگی کے مقررہ وقت کے آنے پر اس کے مطالبے کو موخّر کر دے اور ادائیگی کی مدت میں کشائش دے دے، یہاں تک کہ قرض کے ادائیگی کے لیے اس کے پاس مال آجائے۔ "أو يَضَعْ عنه" یعنی اس پر واجب الادا سارا یا کچھ قرض معاف کر دے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: (وَإِنْ كَانَ ذُو عُسْرَةٍ فَنَظِرَةٌ إِلَى مَيْسَرَةٍ وَأَنْ تَصَدَّقُوا خَيْرٌ لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ) [البقرة: ۲۸۰] ترجمہ: اور اگر وہ تنگ دست ہے تو آسودہ حالی تک مہلت دینی چاہیے اور بخش دو، تو تمھارے لیے بہت ہی بہتر ہے اگر تم جانتے ہو.