الحفيظ
الحفظُ في اللغة هو مراعاةُ الشيء، والاعتناءُ به، و(الحفيظ) اسمٌ...
ابو ھریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ جس کے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے‘ اس کو مصيبت سے دوچار کر دیتا ہے۔‘‘
جب اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے ساتھ بھلائی کا ارادہ کرتا ہے تو انہیں ان کی جان، مال اور اولاد کے تئیں آزمائش سے دوچار کرتا ہے۔ تاکہ یہ ان کے گناہوں کا کفارہ اور ان کے درجات کی بلندی کا سبب بنے۔ جب ايک عقلمند شخص آزمائش اور مصيبت کے انجام پر غور کرتا ہے تو اسے معلوم ہوتا ہے کہ يہ اس کے لیے دنيا وآخرت ميں خير وبھلائی کا باعث ہے۔ دنیا میں بہتری کا پہلو اس طرح ہے كہ وه اس حالت میں دعا، عاجزی اور اپنی حاجت کے اظہار کے ذريعہ اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور آخرت میں خیر کا پہلو اس طرح ہے کہ یہ گناہوں کی معافی اور درجات کی بلندی کا سبب ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: (وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِنَ الْخَوْفِ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِنَ الْأَمْوَالِ وَالْأَنْفُسِ وَالثَّمَرَاتِ وَبَشِّرِ الصَّابِرِينَ) سورۃ البقرۃ: 155۔ ترجمہ: ’’اور ہم کسی نہ کسی طرح تمہاری آزمائش ضرور کریں گے، دشمن کے ڈر سے، بھوک پیاس سے، مال وجان اور پھلوں کی کمی سے اور صبر کرنے والوں کو خوش خبری دے دیجیے۔‘‘ شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہيں: ’’يہ مطلق حديث ان دوسری احادیث سے مقید ہے جو اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ اس حديث کا مطلب يہ ہے کہ: اللہ جس کے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے‘ پس وہ صبر کرتا ہے اور اللہ سے ثواب کی اميد رکھتا ہے، تو اللہ اسے مصيبت سے دوچار کر دیتا ہے تاکہ اسے آزمائے۔ ليكن اگر وہ صبر نہ کرے، تو انسان کبھی کبھار بہت ساری مصیبتوں میں مبتلا کردیا جاتا ہے اور ان میں خیر نہیں ہوتا ہے اور اللہ اس کے ساتھ بھلائی کا اراده نہیں فرماتا ہے۔ چنانچہ کفار ڈھیروں مصائب میں مبتلا کئے جاتے ہیں، اس کے باوجود وہ اپنے کفر پر قائم رہتے ہیں اور اسی پر مرتے ہیں، بلا شبہ ان لوگوں کے ساتھ اللہ نے بھلائی کا اراده نہیں کیا ہے۔