البحث

عبارات مقترحة:

الحافظ

الحفظُ في اللغة هو مراعاةُ الشيء، والاعتناءُ به، و(الحافظ) اسمٌ...

الأعلى

كلمة (الأعلى) اسمُ تفضيل من العُلُوِّ، وهو الارتفاع، وهو اسمٌ من...

البارئ

(البارئ): اسمٌ من أسماء الله الحسنى، يدل على صفة (البَرْءِ)، وهو...

عمر بن خطاب اور ان کے بیٹے عبد اللہ اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا کہ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے اس وقت تک لڑوں جب تک کہ وہ لا الہ الا اللہ نہ کہہ دیں (یعنی اسلام لے آئیں) اور یہاں تک کہ وہ نماز قائم کرنے لگیں اور زکوۃ دینا شروع کردیں۔ جو لوگ یہ کرلیں گے وہ مجھ سے اپنی جان اور اپنا مال محفوظ کر لیں گے سوائے اس حق کے جو اسلام کی وجہ سے واجب ہوگا، باقی رہا ان کا حساب تو وہ اللہ کے ذمہ ہے۔

شرح الحديث :

اللہ تعالی نے مشرکین سے لڑنے کا حکم دیا یہاں تک کہ وہ اس بات کی گواہی دے دیں کہ اللہ وحدہ لا شریک کے سوا کوئی معبودِ برحق نہیں ہے اور اس بات کی بھی گواہی دے دیں کہ محمد اللہ کے رسول ہیں اور اس گواہی کی بدولت جو عمل واجب ہوتا ہے اسے بجا لائیں یعنی پانچ نمازوں کی پابندی کریں اور زکوۃ واجب ہونے پر اسے ادا کریں۔ جب وہ ان فرائض کو ان دیگر اشیاء کے ساتھ انجام دینے لگیں گے جو اللہ تعالی نے ان پر واجب کی ہیں تو اس صورت میں وہ اپنی جانوں کو قتل ہونے سے اور اپنے اموال کو (ضائع ہونے سے) بچا لیں گے کیونکہ اسلام لانے کی وجہ سے یہ معصوم ہو جائیں گے۔ ماسوا اس صورت میں جب کوئی اسلام کا حق پیدا ہو جائے بایں طور کہ کسی شخص سے ایسا عمل سرزد ہو جائے جس پر ازروئے شریعت اس کا مواخذہ ضروری ہو یعنی اس پر قصاص یا حد وغیرہ آئے۔ جس نے اس حکم کو پورا کیا جس کا اسے حکم دیا گیا تو وہ مومن ہے اور جس نے محض تقیہ کرتے ہوئے اوراپنے مال و جان کے ڈر سے ایسا کیا (یہ گواہی دی) تو وہ منافق ہے۔ اللہ تعالی اس کے باطن کے حال کو جانتا ہے اور وہی اس پر ان سے حساب لے گا۔


ترجمة هذا الحديث متوفرة باللغات التالية