العالم
كلمة (عالم) في اللغة اسم فاعل من الفعل (عَلِمَ يَعلَمُ) والعلم...
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’سات (آفتوں کے آنے) سے پہلے جلدی جلدی عمل کرلو۔ کیا تمہیں غافل کر دینے والی غربت، سرکش بنا دینے والی امیری، یا تباہ کر دینے والے مرض، یا ایسے بڑھاپے جس سے سے عقل سٹھیا جائے یا اچانک آ جانے والی موت کا انتظار ہے یا پھر دجال جیسے بدترین غائب چیز کا انتظار ہے یا پھر قیامت کا؟۔ قیامت تو بہت ہیبت ناک اور کڑوی ہے‘‘۔
سات اشیاء جنہوں نے انسان کو گھیر رکھا ہے ان سے پہلے نیک اعمال کرنے میں جلدی کرو اس اندیشے کے تحت کہ کہیں تم ان کی زد میں نہ آ جاؤ؛ غریبی جو انسان کو بہت سے مصالح سے غافل کر دیتی ہے کیونکہ انسان رزق کی تلاش میں مصروف ہو جاتا ہے اور یوں بہت سی اشیاء جو اس کے لیے اہم ہوتی ہیں ان سے اس کی توجہ ہٹ جاتی ہے یا پھر ایسی امیری جو آدمی کو حقِ بندگی ادا کرنے سے بے پرواہ کر دیتی ہے یا پھر ایسا مرض جو عقل وجسم میں بگاڑ کا باعث ہوتا ہے اور عبادت کی ادائیگی میں آڑ بن جاتا ہے یا ایسا بڑھاپا جو نادرست گفتگو کا سبب ہوتا ہے یا پھر اچانک آنے والی موت یا وہ دجال جسے اللہ تعالیٰ آخری زمانے میں بھیجے گا۔ یہ بدترین غائب ہے جس کا انتظار کیا جا رہا ہے کیونکہ اس کا فتنہ بہت سخت ہو گا اور اس سے صرف وہی بچ پائے گا جسے اللہ بچائے گا یا پھر قیامت جو کہ دنیا کے عذاب اور اس کی ہولناکیوں سے کہیں بڑی مصیبت اور ان سے کہیں زیادہ کڑوی ہے۔ جیسا کہ پیچھے گزر چکا ہے کہ یہ حدیث ضعیف ہے۔ جلدی کرنے اور سبقت لے جانے کا جو عمومی حکم ہے وہ دیگر نصوص سے ثابت ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: سَابِقُوا إِلَى مَغْفِرَةٍ مِنْ رَبِّكُمْ وَجَنَّةٍ عَرْضُهَا كَعَرْضِ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ۔‘‘ (سورہ الحدید: 21)ترجمہ: ’’دوڑو اپنے رب کی مغفرت کی طرف اور اس جنت کی طرف جس کی وسعت آسمان وزمین کی وسعت کے برابر ہے‘‘۔ اور اسی طرح فرمایا: ’’ وَسَارِعُوا إِلَى مَغْفِرَةٍ مِنْ رَبِّكُمْ وَجَنَّةٍ عَرْضُهَا السَّمَاوَاتُ وَالْأَرْضُ‘‘۔(سورہ آل عمران: 133) ترجمہ: ’’اور اپنے رب کی بخشش کی طرف اور اس جنت کی طرف دوڑو جس کی وسعت آسمانوں اور زمین کے برابر ہے‘‘۔