الرحيم
كلمة (الرحيم) في اللغة صيغة مبالغة من الرحمة على وزن (فعيل) وهي...
عبد الله ابن معقل روایت کرتے ہیں کہ: میں کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھا ہوا تھا۔ میں نے ان سے فدیہ کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا کہ (قرآن شریف کی آیت) اگرچہ خاص میرے بارے میں نازل ہوئی تھی لیکن اس کا حکم تم سب کے لیے ہے۔ ہوا یہ کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لایا گیا تو جوئیں سر سے میرے چہرے پر گر رہی تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (یہ دیکھ کر فرمایا) میں نہیں سمجھتا تھا کہ تم اتنی تکلیف میں ہو گے۔ یا (آپ نے یوں فرمایا کہ) میں نہیں سمجھتا تھا کہ تم اتنی جہد (مشقت) میں ہو گے۔ کیا تمہیں ایک بکری مل سکتی ہے؟ میں نے کہا کہ نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر تین دن کے روزے رکھو یا چھ مسکینوں کو کھانا کھلاؤ، ہر مسکین کو آدھا صاع کھلانا۔ ایک اور روایت میں ہے کہ: رسول اللہ ﷺ نے انہیں حکم دیا کہ وہ چھے افراد میں ایک فرق (تین صاع) غلہ تقسیم کر دیں، یا ایک بکری کی قربانی دے دیں یا تین دن کے روزے رکھیں۔
نبی ﷺ نے کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ کو حدیبیہ کے مقام پر حالت احرام میں دیکھا کہ بیماری کی وجہ سے جوئیں ان کے چہرے پر گر رہی ہیں۔ نبی ﷺ کو ان کی یہ حالت دیکھ کر ان پر بہت ترس آیا اور آپ ﷺ نے فرمایا: میرا نہیں خیال تھا کہ تمھیں اس حد تک مشقت ہو رہی ہو گی، جس پر میں تمھیں اب دیکھ رہا ہوں۔ پھر آپ ﷺ نے ان سے پوچھا: کیا تمھیں ایک بکری دستیاب ہو سکتی ہے؟ انھوں نے جواب دیا کہ نہیں۔ اس پر اللہ تبارک و تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: "فَمَنْ كَانَ مِنْكُم مَرِيضَاً أوْ به أذَىً مِنْ رَأسِه فَفِدْية مِنْ صِيَامٍ أوْ صَدَقَةٍ أوْ نُسُكٍ" (البقرة: 196) ترجمہ: پھر جو کوئی تم میں سے بیمار ہو یا اسے سر میں تکلیف ہو، تو روزوں سے یا صدقہ سے یا قربانی سے فدیہ دے۔ اس پر نبی ﷺ نے انھیں اختیار دیاکہ یا تو وہ تین دن کے روزے رکھیں یا چھ مسکینوں کا کھانا کھلا دیں، بایں طور کہ ہر مسکین کو نصف صاع گیہوں یا کوئی اور غلہ دیں۔ یہ ان کے حالت احرام میں سر میں جوئیں پڑنے کی وجہ سے مجبورا اسے منڈانے کا کفارہ ہو جائے گا۔ ایک اور روایت میں ہے کہ آپ ﷺ نے انھیں تینوں کے مابین اختیار دیا کہ وہ کسی کو بھی کر لیں۔