المولى
كلمة (المولى) في اللغة اسم مكان على وزن (مَفْعَل) أي محل الولاية...
معقل بن یسار رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”کوئی ایسا بندہ، جسے اللہ کسی رعایا کا نگران بناتا ہے اور مرنے کے دن وہ اس حالت میں مرتا ہے کہ اپنی رعیت سے دھوکا کرنے والا ہے، تو اللہ اس پر جنت حرام کردیتا ہے“۔
معقل بن یسار رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں رعایا کے ساتھ خیانت سے ڈرایا گیا ہے۔ چنانچہ کہا گيا ہے: ”ما من عبد يسترعيه الله رعية“ یعنی جسے کسی رعایا کی ذمے داری سونپی جائے۔ ''رعية'' کا لفظ یہاں ''مرعية'' کے معنی میں ہے۔ یعنی جسے اللہ لوگوں کے مصالح کی دیکھ بھال کے لیے متعین کرے اور اسے ان کے معاملات کی زمام کار سونپے۔ "الراعی" سے مراد وہ حفاظت کرنے والا ہے، جس کے ذمہ "رعایة" کی حفاظت کی ذمے داری ہو۔ ”يموت يوم يموت وهو غاش“ یعنی اپنی رعیت سے خیانت کرنے والا ہو۔ ''جس دن اسے موت آئے'' سے مراد روح نکلنے اور اس سے ذرا پہلے کا وقت ہے، جس میں توبہ قبول نہیں ہوتی؛ کیوں کہ اپنی خیانت اور کوتاہی سے توبہ کر لینے والا اس وعید کا مستحق نہیں ہے۔ جو شخص اپنی ذمے داری میں خیانت کرے، چاہے یہ ذمے داری عام ہو یا خاص، اسے نبی صادق و مصدق ﷺ نے یہ فرما کر دھمکی دی ہے کہ اس پر اللہ جنت حرام کر دیتا ہے۔ یعنی اگر وہ خیانت کو حلال سمجھ کر کرے۔ اس کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اللہ اسے سابقین اولین کے ساتھ جنت میں داخل ہونے سے روک دے گا۔