النصير
كلمة (النصير) في اللغة (فعيل) بمعنى (فاعل) أي الناصر، ومعناه العون...
قیس بن بشر تغلبی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ مجھے میرے والد نے جو ابوالدرداء کے ہم نشین تھے بتلایا کہ رسول اللہ ﷺ کے صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم میں سے ایک صحابی دمشق میں تھے جن کو سہل بن الحنظلیہ کہا جاتا تھا وہ بڑے خلوت نشین تھے۔ لوگوں میں بہت کم بیٹھتے تھے، وہ زیادہ تر نماز ہی میں ہوتے اس سے فارغ ہوتے تو تسبیح وتکبیر میں مشغول ہوجاتے تھے یہاں تک کہ اپنے گھر چلے آتے۔ (راوی کہتے ہیں کہ) ایک روز وہ ہمارے پاس سے گزرے اور ہم اس وقت ابوالدرداء کے پاس تھے ابوالدرادء نے ان سے فرمایا کہ کوئی ایسی بات سنائیں جو ہمیں فائدہ دے اور آپ کو نقصان نہ دے۔ کہنے لگے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک سریہ (مجاہدین پر مشتمل ایک دستہ) روانہ فرمایا۔ جب وہ (لڑائی سے) واپس آگیا تو ان میں سے ایک آدمی آیا اور رسول اللہ ﷺ والی مجلس میں بیٹھ گیا اور اپنے پہلو میں بیٹھے شخص سے کہنے لگا کہ کاش تم نے ہمیں دیکھا ہوتا جب ہماری دشمن سے مڈبھیڑ ہوئی تھی فلاں آدمی نے نیزہ اٹھا کر کسی کافر کو مارا اور کہا کہ یہ رہا میری طرف سے نیزہ اور میں غفاری لڑکا ہوں۔ تمہارا اس لڑکے کے قول کے بارے میں کیا خیال ہے؟ اس نے کہا کہ میرا تو یہ خیال ہے کہ اس کا اجر ضائع ہوگیا۔ ایک دوسرے شخص نے اس کی یہ بات سنی تو کہا کہ میں تو اس لڑکے کے اس قول میں کوئی حرج نہیں سمجھتا۔ اس پر دونوں نے تنازع کیا یہاں تک کہ رسول اللہ ﷺ نے سن لیا۔ فرمایا سبحان اللہ اس میں کوئی حرج نہیں کہ اس کو اجر بھی ملے اور اس کی تعریف بھی کی جائے۔ راوی بشر تغلبی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے ابوالدرداء کو دیکھا کہ وہ اس حدیث کو سن کر خوش ہوگئے اور اپنا سر ان کی طرف اٹھایا اور کہنے لگے کہ آپ نے خود یہ رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے؟ وہ کہنے لگے کہ جی ہاں۔ ابوالدرداء مسلسل اس بات کا اعادہ کرتے رہے یہاں تک کہ مجھے لگنے لگا کہ وہ اپنے گھٹنوں کے بل بیٹھ جائیں گے (جیسے کہ متعلم اپنے استاد کے سامنے اظہار تواضع کے لیے بیٹھتا ہے۔)۔ بشر تغلبی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ ایک اور دن وہ صاحب ہمارے پاس سے گزرے تو ابوالدرداء نے ان سے کہا کہ کوئی ایسی بات بتائیں جو ہمیں نفع دے اور آپ کو کوئی نقصان نہ پہنچائے۔ انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے ہم سے فرمایا: ’’گھوڑے پر خرچ کرنے والا اس شخص کی طرح ہے جو اپنے دونوں ہاتھ پھیلائے صدقہ کر رہا ہو اور انہیں کبھی بھی بند نہ کرے‘‘۔ پھر ایک روز وہ ہمارے پاس سے گزرے توان سے ابوالدرداء نے فرمایا کوئی ایسی بات سنائیں جو ہمیں نفع پہنچائے اور آپ کو کوئی نقصان نہ دے۔ وہ کہنے لگے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ خریم اسدی بہت اچھا آدمی ہے اگر اس کی زلفیں لمبی نہ ہوں اور وہ ازار نیچے نہ لٹکائے۔ پس یہ بات خریم رضی اللہ تعالیٰ عنہ تک پہنچی تو انہوں نے فوراً چھری لے کر اپنے بڑھے ہوئے بالوں کو کانوں تک کاٹ دیا اور اپنے ازار کو نصف پنڈلی تک اونچا کردیا۔ پھر ایک اور دن وہ ہمارے پاس سے گزرے تو ابوالدرداء نے ان سے فرمایا کہ کوئی ایسا بات بتائیں جو ہمیں نفع دے اور آپ کو نقصان نہ پہنچائے۔ انہوں نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو (کسی سفر سے واپسی پر) یہ فرماتے ہوئے سنا کہ ’’تم لوگ اپنے بھائیوں کے پاس آرہے ہو چنانچہ اپنی سواریاں اور اپنے لباس وغیرہ درست کرلو یہاں تک کہ تم لوگوں کے مابین ایسے نمایاں نظر آؤ جیسے (جسم میں سیاہ) تل ہوتا ہے کیونکہ اللہ تعالی گندی باتیں کرنے کو اور گندا سندا رہنے کو پسند نہیں فرماتا‘‘۔
دمشق میں ایک آدمی تھا جسے ابن الحنظلیہ کہا جاتا تھا۔ وہ لوگوں سے الگ تھلک رہنا پسند کرتا۔ نماز و تسبیح اور گھر کے کام کاج کے علاوہ اس کا کوئی اور شغل نہیں تھا۔ ایک دن وہ ابو الدرداء رضی اللہ عنہ کے پاس سے گزرا جو اپنے ساتھیوں کے ہمراہ تشریف فرما تھے۔ ابو الدرداء رضی اللہ عنہ نے اس شخص سے کہا کہ ہم سے کوئی ایسی بات کرو جو ہمیں نفع دے اورتمہارے لیے نقصان دہ نہ ہو۔ اس پر ابن حنظلیہ نے بیان کیا کہ نبی ﷺ نے ایک سریہ کو کسی مہم پر بھیجا۔ سریہ اس لشکر کو کہتے ہیں جس میں چار سو سے کم افراد ہوں۔ مقصد یہ تھا کہ وہ جا کر کفارسے لڑیں اگر وہ اسلام کو قبول نہ کریں۔ جب وہ واپس آئے تو ان میں سے ایک اس جگہ پر بیٹھ گیا جہاں رسول ﷺ تشریف فرما ہوتے تھے اور لشکر کی کار گزاری سنانے لگ گیا۔ اس نے بتایا کہ ایک تیر انداز نے تیر مارا اور وہ تیر مارتے ہوئے کہتا جاتا کہ یہ لو، اور میں غفاری جوان ہوں۔ یعنی وہ اظہار فخر کر رہا تھا۔ جنگ میں اگر انسان دشمن کے سامنے فخر کا اظہار کرے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ وہاں موجود بعض لوگوں نے کہا کہ اس کا اجر تو ضائع ہو گیا کیونکہ اس نے فخر کیا۔ کچھ دوسرے لوگ کہنے لگے کہ ایسا کہنے میں کوئی حرج نہیں۔ان کے مابین بحث چل نکلی۔ اسی اثناء میں نبی ﷺ باہر تشریف لائے جب کہ اس بات پر ان کے مابین جھگڑا چل رہا تھا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: سبحان اللہ! یعنی تم اس پر کیسے جھگڑ رہے ہو؟ اس میں کوئی حرج نہیں کہ اس کی تعریف بھی ہو اور وہ اجر کا مستحق بھی ٹھہرے اور یوں اللہ اس کے لیے دین و دنیا دونوں ہی کی بھلائیاں اکٹھی کر دے۔ اس کی تعریف ہو کہ وہ ایک بہادر آدمی اور تیر انداز ہے اور اللہ کے ہاں سے اسے اجر بھی ملے، اس میں کوئی حرج کی بات نہیں۔ بشر تغلبی کہتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ یہ بات سن کر ابو درداء خوش ہو گئے کیونکہ اس میں اس بات کا بیان تھا کہ دنیوی نفع اخروی ثواب کے منافی نہیں ہے۔ انہوں نے اپنا سر جھکایا ہوا تھا لیکن یہ بات سن کر وہ سراٹھا کر پوچھ رہے تھے کہ کیا آپ نے رسول اللہ ﷺ سے یہ خود سنا ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ: ہاں۔ ابو درداء بار بار ان سے یہ پوچھ رہے تھے۔ یہاں تک کہ مجھے یہ لگا کہ وہ بہت زیادہ تواضع کرتے ہوئے اپنے گھٹنوں کے بل بیٹھ جائیں گے جیسا کہ متعلم استاد کے سامنے بیٹھا کرتا ہے۔ ایک دن پھر ابن الحنظلیہ کا وہاں سے گزر ہوا تو ابو درداء رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا: ہمیں کوئی ایسی بات بتائیں جو ہمارے لیے مفید ہو اور آپ کو اس سے کوئی نقصان نہ ہو۔اس پر انہوں نے بتایا کہ نبی ﷺ نے فرمایا کہ ’’جو شخص گھوڑے کو چرانے، اسے پانی پلانے اور اس کے لیے چارے کا انتظام وغیرہ کرنے میں اس پر خرچ کرتا ہے تو وہ اس شخص کی مانند ہے جس نے اپنا ہاتھ ہمیشہ کے لیے صدقہ کے لیے کھول رکھا ہو اور اسے وہ بند نہ کرے۔ یہاں گھوڑے سے مراد وہ گھوڑا ہے جسے جہاد فی سبیل اللہ کے لیے تیارکیا گیا ہو۔ پھر ایک دن ان کے پاس سے ابن الحنظلیہ گزرے تو انہوں نے ان سے کہا کہ ہمیں کوئی ایسی بات بتائیں جو ہمارے لیے نفع بخش اور آپ کے لیے کچھ ضرر رساں نہ ہو۔ اس پر انہوں نے بتایا کہ نبی ﷺ نے خریم اسدی رضی اللہ عنہ کی تعریف فرمائی لیکن ساتھ ہی فرمایا کہ (وہ بہت اچھا آدمی ہے) اگراس نے اپنی زلف لمبی نہ کر رکھی ہوتی، اس سے مراد وہ بال ہیں جو لمبے ہو کر شانوں تک پہنچ رہے ہوں اور ان پر گر رہے ہوں اور اگر وہ اپنے کپڑے نہ لٹکاتے۔اس شخص نے یہ بات سنی تو فوراً چھری لی اور اس سے اپنی زلف کو کاٹ دیا یہاں تک کہ وہ کانوں تک رہ گئی۔ اسی طرح انہوں نے اپنے کپڑے کو دونوں پنڈلی کے نصف تک اونچا کر لیا ایک اور دن ان کا وہاں سے گزر ہوا تو ابوالدرداء نے ان سے کہا کہ ہمیں کوئی ایسی بات بتائیں جو ہمارے لیے سود مند اور آپ کے لیے نقصان دہ نہ ہو۔انہوں نے کہا کہ ایک دفعہ جب رسول اللہ ﷺ ایک جنگ سے واپس لوٹے تو میں نے آپ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: ’’تم کل اپنے مومن بھائیوں کے پاس پہنچ رہے ہو۔ جن سواریوں پر تم سوار ہو انہیں بھی تم درست کر لو اور اپنے لباس کو بھی سنوار لو اور بہترین شکل و صورت اختیار کر لو یہاں تک کہ تم لوگوں میں ایسے نمایاں ہو جاؤ جیسے جسم میں سیاہ تل ہوتا ہے۔ اللہ اس شخص کو پسند نہیں فرماتا جس کی ہیئت، لباس اور باتیں گندی ہوتی ہیں اور نہ ہی اس کو پسند فرماتا ہےجو جان بوجھ کر گندا رہتا ہے‘‘۔