العلي
كلمة العليّ في اللغة هي صفة مشبهة من العلوّ، والصفة المشبهة تدل...
ابو ہریرہ - رضی اللہ عنہ - سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا : " بے شک قیامت کے دن اللہ تعالیٰ فرمائے گا اے آدم کے بیٹے! میں بیمار ہوا تو نے میری بیمار پُرسی نہیں کی۔ وہ کہے گا : اے میرے رب میں کیسے آپ کی بیمار پرسی کرتا آپ تو رب العالمین ہیں؟! اللہ تعالیٰ فرمائے گا : کیا تو یہ نہیں جانتا کہ میرا فلاں بندہ بیمار ہوا اور تُو نے اس کی بیمار پرسی نہیں کی! کیا تو یہ نہیں جانتا کہ اگر تو اس کی بیمار پرسی کرتا تو مجھے اس کے پاس پاتا! اے آدم کے بیٹے، میں نے تجھ سے کھانا مانگا تو تُو نے مجھے نہیں کھلایا! وہ کہے گا: اے میرے رب، میں کیسے آپ کو کھانا کھلاتا آپ تو رب العالمین ہیں؟! اللہ تعالیٰ فرمائے گا: کیا تو یہ نہیں جانتا کہ میرے فلاں بندے نےتجھ سے کھانا مانگا تو تُو نے اسے کھانا نہیں کھلایا! کیا تُو یہ نہیں جانتا کہ اگر تُو اسے کھانا کھلاتا تواس کا اجر مجھ سے پاتا! اے آدم کے بیٹے، میں نے تجھ سے پینے کو کچھ مانگا تو نے مجھے نہیں پلایا! وہ کہے گا : اے میرے رب میں کیسے آپ کو پلاتا آپ تو رب العالمین ہیں؟! اللہ تعالیٰ فرمائے گا: کیا تو یہ نہیں جانتا کہ میرے فلاں بندے نےتجھ سے پینے کو کچھ مانگا اور تُو نے اسے نہیں پلایا! کیا تُو یہ نہیں جانتا کہ اگر تُو اسے پلاتا تواس کا اجر مجھ سے پاتا!
ابو ہریرہ - رضی اللہ عنہ - سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : " بے شک قیامت کے دن اللہ تعالیٰ فرمائے گا اے آدم کے بیٹے ! میں بیمار ہوا تو نے میری بیمار پرسی نہیں کی۔ وہ کہے گا : اے میرے رب میں کیسے آپ کی بیمار پرسی کرتا آپ تو رب العالمین ہیں؟! یعنی آپ کو تو ضرورت نہیں ہے کہ میں آپ کی بیمار پرسی کرتا، اللہ تعالیٰ فرمائے گا : کیا تو یہ نہیں جانتا کہ میرا فلاں بندہ بیمار ہوا اور تُو نے اس کی بیمار پرسی نہیں کی! کیا تو یہ نہیں جانتا کہ اگر تُو اس کی بیمار پرسی کرتا تو مجھے اس کے پاس پاتا! اس حدیث میں کوئی اشکال نہیں جو اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ میں بیمار ہوا تو تُو نے میری بیمار پرسی نہیں کی؛ کیوں کہ اللہ تعالیٰ کو کسی بیماری کا لاحق ہونا ناممکن ہے؛ کیوں کہ بیمار ہونا صفتِ نقص ہے جب کہ اللہ تعالیٰ ہر قسم کے عیبوں سے پاک ہے، لیکن یہاں بیماری سے مراد اس کے نیک اور صالح بندوں میں سے کسی بندے کا بیمار ہونا ہے جو کہ اس کے خاص لوگ ہوتے ہیں، اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: کیا تو یہ نہیں جانتا کہ اگر تُو اس کی بیمار پرسی کرتا تو مجھے اس کے پاس پاتا! اور یہ نہیں فرمایا کہ تُو اس کا اجر میرے پاس پاتا جیسا کہ آگے چل کر کھانے اور پینے کے بارے میں فرمایا، بلکہ یہاں تو یہ فرمایا کہ تُو مجھے اس کے پاس پاتا، اور یہ بات مریض کی اللہ تعالیٰ سے قربت پر دلالت کرتی ہے، اسی لیے علماء کا کہنا ہے کہ مریض کا کسی شخص کے لیے دعاء یا بد دعاء کرنا اللہ تعالیٰ کے ہاں سنا جاتا ہے۔ اللہ کا یہ فرمان : " اے آدم کے بیٹے، میں نے تجھ سے کھانا مانگا اور تُو نے مجھے نہیں کھلایا! یعنی میں نے تجھ سے کھانا مانگا اور تُو نے مجھے نہیں کھلایا، یہ تو بات تو طَے شدہ ہے کہ اللہ تعالٰی اپنے لیے تو کھانا طلب نہیں کرتا اس کا فرمان ہے: اور جو کہ کھانے کو دیتا ہے اور اس کو کوئی کھانے کو نہیں دیتا "(" الأنعام: 14) وہ ہر چیز سے بے نیاز ہے اسے نہ کھانے کی ضرورت ہے نہ تو پینے کی حاجت ہے، لیکن دنیا میں اس کے بندوں میں سے کسی بندے کو بھوک لگی تو ایک شخص نے باوجود جاننے کے اسے کھانا نہ کھلایا تو ارشاد فرمایا: اگر تُو اسے کھانا کھلاتا تواس کا اجر مجھ سے پاتا"، یعنی اس کھلانے کا ثواب میرے پاس میرے خزانون سے پاتا میرے پاس ایک نیکی کا ثواب دس گنا سے لے کر سات سو گنا تک بلکہ اس سے بھی زیادہ ہوتا ہے۔ اللہ کا یہ فرمان: " اے آدم کے بیٹے، میں نے تجھ سے پینے کو کچھ مانگا تو تُو نے مجھے نہیں پلایا"، یعنی میں نے تجھ سے پینے کی کوئی چیز مانگی تو تُو نے مجھے نہیں دی تو بندہ کہے گا : "میں کیسےآپ کو پلاتا آپ تو رب العالمین ہیں؟" یعنی آپ کو تو کھانے پینے کی ضرورت ہی نہیں، تو اللہ تعالیٰ ارشاد فرمائے گا: " کیا تو یہ نہیں جانتا کہ میرے فلاں بندے کو پیاس لگی یا اس نے تجھ سے پانی مانگا، اور تو نے اسے نہیں پلایا، کیا تُو یہ نہیں جانتا کہ اگر تُو اسے پانی پلاتا تواس کا اجر مجھ سے پاتا"، اس میں اس بات کی دلیل ہے کہ اگر کوئی پیاسا آپ سے پانی مانگے تو اسے پانی پلانے پر آپ کو اللہ تعالیٰ کے ہاں اس پلانے کا ثواب (خزانوں میں) جمع ہو گا، ایک نیکی کا ثواب دس گنا سے لے کر سات سو گنا تک بلکہ اس سے بھی زیادہ۔