الكريم
كلمة (الكريم) في اللغة صفة مشبهة على وزن (فعيل)، وتعني: كثير...
عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: "جس مسلمان کے پاس کوئی ایسی شے ہو، جس کے بارے میں وصیت کرنی چاہے، اسے یہ زیب نہیں کہ دو راتیں بھی گزارے، مگر اس حال میں کہ اس کی وصیت اس کے پاس لکھی ہوئی موجود ہو"۔ مسلم شریف کی حدیث میں یہ الفاظ زائد ہیں کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے جب سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے، تب سے کوئی رات ایسی نہیں گزری کہ میرے پاس میری وصیت موجود نہ ہو۔
یہ بات درست، ٹھیک اور تقاضائے احتیاط کے مطابق نہیں ہے کہ جس شخص کے پاس کوئی ایسی شے ہو، جس کے بارے میں وہ وصیت کرنا چاہتا ہواور جس کی وہ وضاحت کرنا چاہتا ہو کہ وہ اس میں لاپرواہی برتے، یہاں تک کہ لمبی مدت گزر جائے۔ بلکہ اسے چاہیےکہ وہ فورا اسے لکھ لے اور اسے واضح کر دے۔ زیادہ سے زیادہ مدت جس کی چھوٹ دی جا سکتی ہے، ایک یا دو راتیں ہیں۔ اسی وجہ سے ابن عمر رضی اللہ عنہما اس نبوی نصیحت کو سننے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے حکم کی پیروی اور بیان حق کے لیس ہر رات اپنی وصیت کو خیال سے رکھا کرتے تھے۔ پھر وصیت کی دو قسمیں ہیں: اول: مستحب، یہ ایسی وصیت ہے، جو نفلی اور اللہ سےقریب کرنے والی چیزوں کے سلسلے میں کی جاۓ۔ دوم: واجب، یہ ایسی وصیت ہے، جو ایسے واجب حقوق کے سلسلے میں کی جاۓ، جن کے بارے میں اس کی وفات کے بعد کوئی دلیل نہ رہے۔ کیوں کہ "جس کام کے بغیر واجب کام پورا نہ ہو، وہ بھی واجب ہے"۔ اور ابن دقیق العید بیان فرماتے ہیں کہ یہ حدیث واجب قسم پر ہی محمول ہے۔