القابض
كلمة (القابض) في اللغة اسم فاعل من القَبْض، وهو أخذ الشيء، وهو ضد...
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے فرمایا: مجھے ان لوگوں پر تعجب ہے جو حدیث کی سند اور اس کی صحت کا علم رکھنے کے باجود سفیان رحمہ اللہ کی رائے کو اپناتے ہیں جب کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے: ’’فليحذر الذين يخالفون عن أمره أن تصيبهم فتنة‘‘ (النور: 63)۔ ترجمہ: ’’جو لوگ الله کے حکم کی مخالفت کرتے ہیں انہیں اس سے ڈرنا چاہیے کہ وہ کسی فتنے میں مبتلا ہو جائیں‘‘۔ کیا تم جانتے ہو کہ فتنہ سے کیا مراد ہے؟ فتنہ سے مراد شرک ہے۔ عین ممکن ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی کسی بات کو رد کرنے پر اس شخص کے دل میں کچھ کجی پیدا ہو جائے جس کی وجہ سے وہ ہلاکت کا شکار ہوجائے۔
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ اس شخص کی مذمت بیان کر رہے ہیں جسے رسول اللہ ﷺ کی صحیح حدیث کا علم ہوجاتا ہے لیکن ا س کے بعد بھی وہ سفیان رحمہ اللہ یا ان کے علاوہ کسی اور کی تقلید کرتا ہے اور حدیث کی مخالفت کا مرتکب ہوتا ہے اور اپنے فعل کو وجہ جواز فراہم کرنے کے لیے عذرِ لنگ پیش کرتا ہے، حالانکہ مومن کے لیے ضروری اور اس پر فرض یہ ہے کہ جب اس تک اللہ تعالیٰ کی کتاب یا اس کے رسول ﷺ کی سنت پہنچ جائے اور وہ اس کا معنیٰ بھی سمجھ جائے تو اس پر عمل کرے اگرچہ دوسرے لوگ اس کی مخالفت ہی کیوں نہ کر رہے ہوں۔ ہمارے رب اور ہمارے نبی ﷺ نے ہمیں ایسا ہی کرنے کا حکم دیا ہے ۔ یہ فرمانے کے بعد امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ اس شخص کے بارے میں اندیشے کا اظہار کرتے ہیں جو رسول اللہ ﷺ کی سنت کا علم آجانے کے بعد بھی اس کی مخالفت کا مرتکب ہوتا ہے کہ کہیں اس کا دل کج نہ ہوجائے اور اس کی وجہ سے وہ دنیا و آخرت میں ہلاکت میں مبتلا ہوجائے۔ اس سلسلے میں امام احمد رحمہ اللہ مذکورہ آیت کو بطور استشہاد پیش کرتے ہیں۔ قرآن کریم میں اس طرح کی بہت سی آیات ہیں جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے: فلما زاغوا أزاغ الله قلوبهم (الصف: 5)۔ ترجمہ: ’’جب ان لوگوں نے کج روی کی تو اللہ نے بھی ان کے دل ٹیڑھے کر دیے‘‘۔ تاہم عالم شخص اگر (غیر دانستہ طور پر) مخالفت کر بیٹھے تو اسے معذور سمجھا جائے گا کیونکہ ربانی علماء دانستہ طور پر کتاب و سنت کی مخالفت نہیں کرتے بلکہ ہوتا یوں ہے کہ بعض اوقات کوئی شے ان سے مخفی رہ جاتی ہے یا پھر وہ اس کے منسوخ ہو جانے یا اس کے ضعیف ہونے کا عقیدہ رکھے ہوتے ہیں۔