الشافي
كلمة (الشافي) في اللغة اسم فاعل من الشفاء، وهو البرء من السقم،...
جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے عمر بھر کے لیے ہبہ کیے گئے مکان کے بارے میں فیصلہ فرمایا کہ وہ اسی کا ہے جس کے لیے وہ ہبہ کیا گیا ہے۔ ایک روایت میں ہے کہ جس کو کوئی مکان عمر بھر کے لیے دیا گیا وہ اس کا ہے اور اس کی اولاد کا۔ بے شک وہ اسی کا ہے جس کے لیے وہ ہبہ کیا گیا وہ اس شخص کی طرف نہیں لوٹایا جائے گا جس نے وہ دیا ہے کیونکہ یہ ایسا عطیہ ہے جس میں موہوب لہ کا ورثہ جاری ہو چکا ہے۔ جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ عمر بھر کے لیے دیا گیا مکان جس کے بارے میں رسول اللہ ﷺ نے اجازت دی کہ ہبہ کرنے والا انسان کسی سے کہہ دے کہ یہ چیز آپ کی اور آپ کی اگلی نسل کی ہوگئی ہے اور اگر یہ شخص یہ کہتا ہے یہ صرف آپ کی زندگی تک کے لیے ہے آپ کی ہوگئی تو وہ چیز مالک کے پاس لوٹ جائے گی۔ مسلم کی ایک حدیث میں ہے کہ (نبی ﷺ نے فرمایا) اپنے مال اپنے قبضے میں رکھو اسے ضائع نہ کرو، جس نے عمر بھر کے لیے مکان دے دیا وہ زندگی میں اسی کا ہے جسے وہ دیا گیا اور مرنے کے بعد اس کی اولاد کا ہے۔
’’عمرى‘‘ (عمرى) اور اسی کی طرح ’’رقبى‘‘ ہبہ کی دو قسمیں ہیں، زمانۂ جاہلیت میں لوگ اس طرح كا ہبہ کیا کرتے تھے، ایک شخص دوسرے کو گھر وغیرہ ان الفاظ میں دیتا جیسے ’’میں نے وہ گھر تجھے عمر بھر کے لیے ہبہ کیا‘‘ یا ’’میں نے تمہاری عمر بھر یا اپنی عمر بھر میں وہ گھر آپ کو دے دیا‘‘۔ لوگ موہوب لہ (جس کو ہبہ کیا گیا ہے۔) کے مرنے کا انتظار کرتے، تاکہ وہ اپنا ہبہ واپس کردے۔ شریعت نے ہبہ کو برقرار رکھا اور اس کی مروّجہ شرط یعنی لوٹانے کو باطل قرار دیا۔ اس لیے کہ ہبہ کو واپس لینے والا کتے کی طرح ہے جو قے کر کے واپس نگلتا ہے۔ اسی وجہ سے آپ ﷺ نے عمر بھر کے ہبہ کا فیصلہ موہوب لہ اور اس کے بعد اس کے پسماندگان کے لیے کیا۔ آپ ﷺ نے لوگوں کو اپنے اموال کی حفاظت کرنے کی تنبیہ فرمائی تاکہ لوگ اپنے گمان میں اس شرط کو لازم قرار نہ دیں اور اس چیز کو واپس لینے کو جائز جانیں۔ چنانچہ فرمایا ”اپنے مال اپنے قبضے میں رکھو اسے ضائع نہ کرو، جس نے عمر بھر کے لیے مکان دے دیا وہ زندگی میں اسی کا رہے گا جسے وہ دیا گیا ہو اور مرنے کے بعد اس کی اولاد کا ہوجائے گا“۔