البحث

عبارات مقترحة:

المهيمن

كلمة (المهيمن) في اللغة اسم فاعل، واختلف في الفعل الذي اشتقَّ...

الباسط

كلمة (الباسط) في اللغة اسم فاعل من البسط، وهو النشر والمدّ، وهو...

العزيز

كلمة (عزيز) في اللغة صيغة مبالغة على وزن (فعيل) وهو من العزّة،...

ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اردگرد ایک جماعت میں بیٹھے ہوئے تھے، ہمارے ساتھ ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما بھی تھے، اچانک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان سے اٹھ کر چلے گئے اور دیر تک ہمارے پاس تشریف نہ لائے۔ تو ، ہم ڈر گئے کہ ہماری غیر موجودگی میں آپ کو قتل نہ کر دیا گیا ہو۔ اس لیے ہم گھبرا کر اٹھ کھڑے ہوئے اور میں سب سے پہلے گھبرانے والا تھا۔ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تلاش میں نکلا، یہاں تک کہ میں انصار کے قبیلے بنو نجار کے باغ تک پہنچ گیا۔ میں اسکے چاروں طرف گھوما کہ مجھے کوئی دروازہ مل جائے مگر مجھے کوئی دروازہ نہ ملا۔ اتفاقاً ایک چھوٹا سا نالہ دکھائی دیا جو ایک بیرونی کنویں سے باغ کے اندر جارہا تھا۔ - ربیع چھوٹے سے نالے کو کہتے ہیں -، میں اسی نالہ میں سمٹ کر داخل ہوا اور آپ کی خدمت میں پہنچ گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”ابوہریرہ؟“ میں نے عرض کیا : جی ہاں، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! فرمايا: ”کيا بات ہے؟“ ميں نے عرض کيا کہ آپ ہمارے درمیان تشریف فرما تھے اور اچانک اٹھ کر چلے گئے اور ہمارے پاس واپس آنے میں آپ کو دیر ہوگئی تو ہمیں ڈر محسوس ہوا کہ کہیں ہماری غیر موجودگی میں آپ کو قتل نہ کر دیا گیا ہو۔ اس لیے ہم گھبرا اٹھے۔ گھبرانے والوں میں سب سے پہلا آدمی میں تھا۔ اس لیے (تلاش کرتے ہوئے) میں اس باغ تک پہنچ گیا اور لومڑی کی طرح سمٹ کر (نالہ کے راستہ سے) اندر آگیا اور لوگ میرے پیچھے ہیں۔ آپ نے اپنے نعلین مبارک مجھے دے کر فرمایا : ”اے ابو ہریرہ! میری یہ دونوں جوتیاں (بطور نشانی) لے کے جاؤ اور اس باغ کے باہر جو بھی ملے، جو دل کے یقین کے ساتھ لا الٰہ الّا اللہ کی گواہی ديتا ہو تو اسے جنت کی بشارت دے دو۔ ۔ ۔ اور پوری حديث ذکر کی۔

شرح الحديث :

نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے بعض اصحاب کے ساتھ تشريف فرما تھے۔مجلس ميں ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما بھی موجود تھے۔ اچانک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے اٹھ کر چلے گئے اور دیر تک تشریف نہ لائے۔صحابۂ کرام کو خوف لاحق ہواکہ کہيں ان کی غیر موجودگی میں کوئی آپ کو پکڑ نہ لیا ہو اور آپ کو تکليف پہونچی ہو۔ کيونکہ آپ صلی اللہ عليہ وسلم منافقوں اور دوسرے اسلام کے دشمنوں کی آنکھوں ميں کھٹکتے تھے۔ اس لیے صحابہ کرام گھبرا کر اٹھ کھڑے ہوئے، سب سے پہلے ابو ہريرہ رضی اللہ عنہ کو گھبراہٹ ہوئی، (وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تلاش میں نکلے)یہاں تک کہ بنو نجار کے باغ تک پہنچ گئےاور اس کا چکر لگانے لگے تاکہ کوئی دروازہ کھلا ہوا پاجائيں مگر انھیں نہیں ملا۔ ليکن انہوں نے پانی کے داخل ہونے کے لیے دیوار میں ايک چھوٹا ساراستہ کھلا ہوا پايا تو اپنے جسم کو سميٹ کر اندر داخل ہونے ميں کامياب ہو گئے۔ چنانچہ نبی صلی اللہ عليہ وسلم کو وہاں پر موجود پايا۔ آپ صلی اللہ عليہ وسلم نے ان سے فرمايا: ”ابو ہريرہ؟“، انہوں نے عرض کيا : جی ہاں، تو آپ صلی اللہ عليہ وسلم نے انھیں اپنی جوتياں ديں جو اس بات کی علامت اور نشانی کے طور پر تھی کہ ابو ہريرہ جو خبر دينے والے ہیں اس ميں سچے ہیں، اور فرمایا: ”میری یہ دونوں جوتیاں لےجاؤ اور اس باغ کے باہر جو بھی ملے، جو دل کے یقین کے ساتھ لا الٰہ الّا اللہ کی گواہی ديتا ہو تو اسے جنت کی بشارت دے دو۔‘‘ کيونکہ سچے دل سے اس کلمے کی گواہی دينے والا ضرور اللہ کے احکام کی بجا آوری کرےگا اور اللہ کی منع کردہ چيزوں ٍٍٍسے بچے گا۔ اس لیے کہ وہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود برحق نہ ہونے کا اقرار کر تا ہے۔ جب اس عظيم الشان کلمے کا يہ معنیٰ ہے تو ہر صورت ميں وہ شخص اللہ عزوجل ہی کی عبادت کرے گا جس کا کوئی شريک وساجھی نہيں۔ ليکن وہ شخص جو صرف زبان سے اس کلمے کی ادائيگی کرتا ہے اور سچے دل سے اس پر يقين نہيں رکھتا، تو اسے اس سے کوئی فائدہ نہيں حاصل ہوگا۔


ترجمة هذا الحديث متوفرة باللغات التالية