الإله
(الإله) اسمٌ من أسماء الله تعالى؛ يعني استحقاقَه جل وعلا...
ابو واقد لیثی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ تشریف لائے، تو وہاں کے لوگ (زندہ) اونٹوں کے کوہان اور (زندہ) بکریوں کی پٹھ کاٹتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”زندہ جانور کا کاٹا ہوا گوشت مردار ہے“۔
اس حدیث میں یہ فوائد بیان کیے گئے ہیں کہ نبی ﷺ مدینہ تشریف لائے اوراہل مدینہ کے نزدیک یہ طریقہ رائج تھا کہ وہ (زندہ) اونٹ کی کوہان اور (زندہ) بکریوں کا چوتڑ کاٹ کر کھاتے اور ان سے استفادہ کرتے تھے۔ لہٰذا آپ ﷺ نے انھیں اس عمل سے روک دیا اور اس مسئلے کے حوالے سے مسلمانوں کے لیے ایک قاعدہ کلیہ بیان فرمادیا کہ زندہ چوپایوں کا جو حصہ کاٹ لیا جائے، جیسے اونٹ کی کوہان یا بکری کا چوتڑ وغیرہ، چاہے آدمی خود کاٹے یا کٹا ہوا حاصل کرے، اس کا حکم اس جانور کے مردار کا حکم ہے؛ اگر اس جانور کا مردار طاہر ہے، تو طاہر ہوگا اور اگر اس جانور کا مردار نجس ہے، تو نجس ہوگا۔ چنانچہ آدمی کا ہاتھ طاہر ہوگا، جب کہ مینڈھے کا چوتڑ نجس ہوگا۔ اسی سے اور بھی مسائل کا استخراج ہو سکتا ہے۔ البتہ ماکول اللحم جانوروں کے بال، ان کی اون، ان کے پر، ان کا رواں، ان کا مشک اور مشک دان، یہ ساری چیزیں طاہر و پاک ہیں۔