الله
أسماء الله الحسنى وصفاته أصل الإيمان، وهي نوع من أنواع التوحيد...
عالیہ بنت سبیع بیان کرتی ہیں کہ احد کی جانب میری بکریاں ہوتی تھیں ۔ ہوا یہ کہ وہ مرنا شروع ہو گئیں تو میں ام المؤمنین میمونہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئی اور ان سے اس کا ذکر کیا۔ میمونہ رضی اللہ عنہا نے مجھ سے کہا : اگر تم ان کے چمڑے اتار لیتی تو ان سے فائدہ اٹھاسکتی تھی ۔ کہتی ہیں کہ میں نے پوچھا: کیا یہ حلال ہیں؟ انہوں نے کہا : ہاں ۔ قریش کے کچھ لوگ رسول اللہ ﷺ کے پاس سے گزرے ، وہ گدھے کی طرح ایک بکری گھسیٹے جا رہے تھے۔ تو رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا ” تم اس کا چمڑا ہی اتار لیتے۔“ انھوں نے کہا : یہ مردار ہے ۔ آپ ﷺ نے فرمایا ” اسے پانی اور قرظ پاک کر دیتا ہے۔“ (قرظ کیکر کی مانند ایک درخت ہوتا ہو جو چمڑا صاف کرنے میں استعمال ہوتا ہے۔)
عالیہ بنت سبیع رحمہا اللہ فرماتی ہیں کہ ان کے پاس بکریاں تھیں اور وہ کسی مرض وغیرہ کی وجہ سے مرنا شروع ہو گئیں۔ وہ حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئیں اور انہیں بتایا تو انھوں نے ان کے چمڑے سے فائدہ حاصل کرنے کے لیے کہا۔ انھوں نے پوچھا کہ کیا بکری کے مرنے کے بعد اس کے چمڑے سے فائدہ حاصل کرنا جائز ہے؟ (حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا نے)جواب دیا : ہاں۔ پھر انھوں نے اپنی بات کا استدلال اس سے ملتے جلتے ایک واقعہ سے کیا اور وہ یہ تھا کہ: قریش کے کچھ لوگ نبی کریمﷺ کے پاس سے گزرے، وہ ایک بکری گھسیٹے جا رہے تھے جیسے کہ گدھا ہو تاکہ اس کو دور کہیں پھینک دیں اور اس سے خلاصی حاصل کریں یا پھر وہ اپنی جسامت میں گدھے کی طرح تھی(موٹی تازی)۔ تو رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا ” اس کو پھینکنے کے بجائے اس سے نفع حاصل کرلو۔“ انہوں نے کہا : یہ مردار ہے۔ ان کا خیال تھا کہ شاید رسول اللہ ﷺ کو اس بات کا علم نہیں کہ یہ مردہ ہے اور ان کو اس بات کا پتہ تھا کہ مردار کے تمام اجزاء نجاست کی وجہ سے حرام ہوتے ہیں۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ”اس کو پانی اور قرظ سے دباغت دینے سے نجس مادے ختم ہو جاتے ہیں۔“