المعطي
كلمة (المعطي) في اللغة اسم فاعل من الإعطاء، الذي ينوّل غيره...
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آیا اور عرض کیا: اے اللہ کے رسول! وضو کس طرح کیا جائے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک برتن میں پانی منگوایا اور اپنے دونوں ہتھیلیوں کو تین مرتبہ دھویا۔ پھر چہرہ تین مرتبہ دھویا۔ پھر دونوں ہاتھ (کہنیوں سمیت) تین مرتبہ دھوئے۔ پھر سر کا مسح کیا اور شہادت کی دونوں انگلیوں کو اپنے دونوں کانوں میں داخل کیا اور اپنے دونوں انگوٹھوں سے اپنے دونوں کانوں کے ظاہری حصے کا مسح کیا اور شہادت کی دونوں انگلیوں سے اپنے دونوں کانوں کے اندرونی حصے کا مسح کیا۔ پھر اپنے دونوں پاؤں تین تین مرتبہ دھوئے۔ پھر فرمایا: ”وضو (کا طریقہ) اسی طرح ہے؛ لہٰذاجس شخص نے اس سے کچھ زائد کیا یا کمی کی، اس نے برا کیا اور ظلم کیا“، یا فرمایا: ”ظلم کیا اور برا کیا“۔
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنھما اس حدیث میں ذکر کر رہے ہیں کہ نبی کریم ﷺ سے ایک شخص نے وضو کا طریقہ دریافت کیا اور معلم کامل ہونے کی حیثیت سے آپ ﷺ نے وضو کا طریقہ عملی طور پر بیان کیا؛ تاکہ تعلیم کا عمل مؤثر ترین انداز میں انجام پا سکے۔ چنانچہ آپ ﷺ نے پانی کا برتن منگوایا اور پہونچوں تک اپنے دونوں ہاتھ دھوئے۔ پھر تین مرتبہ اپنا چہرہ دھویا۔ پھر اسی طرح اپنے ہاتھ کہنیوں سمیت دھوئے۔ پھر اپنے سر کا مسح کیا اور اپنی انگشت شہادت کے پوروں کو اپنے دونوں کانوں میں داخل کیا اور ان کے وسطی حصے کا مسح کیا اور اپنے انگوٹھوں سے کانوں کے ظاہری حصے کا مسح کیا۔ پھر تین مرتبہ اپنے دونوں پاؤں دھوئے۔ اس کے بعد وضاحت فرمائی کہ وضو کا یہی شرعی طریقہ ہے۔ لہٰذا جس نے اس مشروع طریقے میں زیادتی کی، اس نے سنت کو چھوڑ کر اور شرعی آداب سے روگردانی کرکے بے ادبی کی اور اعضاے وضو کو زیادہ بار دھو کر اپنے ثواب میں کمی کر کے، اپنے اوپر ظلم کیا۔ ایک قول یہ ہے کہ "برا کرنے" کا تعلق زیادتی سے اور "ظلم" کا تعلق کمی سے ہے۔ لیکن کمی کی صورت میں ظالم قرار دیے جانے پر اشکال ہوسکتا ہے؛ کیوںکہ بعض دیگر احادیث میں ایک ایک، دو دو مرتبہ دھونے کے ساتھ وضو کرنے کی روایات بھی وارد ہوئی ہیں۔ اس کا جواب یہ ہے کہ احادیث میں وارد یہ زیادتی شاذ (ضعیف احادیث کی ایک قسم) ہے اور صحیح نہیں ہے۔