الغني
كلمة (غَنِيّ) في اللغة صفة مشبهة على وزن (فعيل) من الفعل (غَنِيَ...
عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "جس آدمی کو نماز میں الٹی ہوجائے، نکسیر پھوٹ پڑے، منہ بھر کر قے ہوجائے یا مذی نکل آئے تو اسے چاہیے کہ لوٹ جائے، وضو کرے اور پھر اپنی نماز کی بنا کرے۔ (جہاں سے نماز چھوڑی تھی، وہیں سے شروع کرے) بشرطے کہ درمیان میں وہ کلام نہ کرے"۔
حدیث کا مفہوم: یعنی جسے نماز میں وہ اشیا لاحق ہوجائیں، جن کا حدیث میں ذکر آیا ہے، اسے چاہیے کہ وہ پلٹ آئے اور نئے سرے سے وضو کرے۔ یعنی طہارت ختم ہوجانے کی وجہ سے اپنی نماز کو چھوڑ کر باہر آ جائے اور نئے سرے سے وضو کرے۔ " ثم لِيَبْنِ على صلاته "۔ یعنی جب دوبارہ نماز کی طرف لوٹے، تو جہاں سے نماز توڑی تھی، وہیں سے شروع کرے اور اس پر یہ لازم نہیں ہے کہ وہ ابتدا سے نماز کو دوبارہ لوٹائے۔ "وهو في ذلك لا يتكلم "۔ یعنی نماز سے نکلنے، وضو کے لیے جانے اور نماز میں دوبارہ لوٹ آنے کے دوران وہ کوئی بات نہ کرے۔ یہ بنا کی شرط ہے۔ اگر یہ شرط نہ پائی گئی، تو نماز فاسد ہوجائے گی اور اس پر اسے ابتدا سے دوبارہ لوٹانا واجب ہو گا۔ تاہم اس حدیث کو علما نے دو وجوہات کی بنا پر ضعیف قرار دیا ہے، جو یہ ہیں: اول: علما کے ایک گروہ نے اس حدیث کی سند کو ضعیف قرار دیا ہے، جن میں امام شافعی، امام احمد اور دار قطنی وغیرہ نیز معاصر علما میں سے علامہ البانی نے شامل ہیں۔ دوم: متن کے اعتبار سے بھی یہ حدیث ضعیف ہے؛ کیوںکہ اس حدیث میں یہ بتابا گیا ہے کہ اس میں مذکور اشیا سے وضو ٹوٹ جاتا ہے، پھر نماز کے آخری حصے کی شروع والے حصے پر بنا کو جائز قرار دیا گیا، جب کہ بلا شک و شبہ یہ اصول شریعت کے مخالف ہے۔ اس کے دلائل میں سے طلق بن علی رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث بھی ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: "جب تم میں سے کسی کی دوران نماز ہوا خارج ہوجائے، تو واپس ہو جاۓ، وضو کرے اور اپنی نماز کا اعادہ کرے"۔ اس حدیث کو ابوداود اور دیگر محدثین نے روایت کیا ہے۔ یہ حدیث اس مسئلے میں نص کی حیثیت رکھتی ہے۔ جب نمازی کا وضو دونوں شرم گاہوں سے کچھ نکلنے کی وجہ سے ٹوٹ جائے، جیسے پھسکی، گوز یا مذی وغیرہ، تو اس پر لازم ہے کہ وہ نماز توڑ دے اور دوبارہ وضو کرکے نماز کا اعادہ کرے۔ توضيح الأحكام(1 /300) تسهيل الإلمام(1/189) فتح ذي الجلال والإكرام(1/262)