العظيم
كلمة (عظيم) في اللغة صيغة مبالغة على وزن (فعيل) وتعني اتصاف الشيء...
علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم لوگ بقیع الغرقد میں ایک جنازے میں شریک تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم ہمارے پاس تشريف لائے اور بيٹھ گئے۔ ہم بھی آپ کے گرد بیٹھ گئے۔ آپ کے پاس ایک چھڑی تھی، آپ ﷺ نے سرجھکایا اور چھڑی سے زمین کو کریدنا شروع کردیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''تم ميں سے ہر ايک شخص کا جہنم اورجنت کا ٹھکانا لکھ دیا گیا ہے۔‘‘ لوگوں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم! کیا ہم اپنے لکھے ہوئے پر بھروسا نہ کرلیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عمل کرو، اس لیے کہ ہر شخص کو اسی عمل کی توفیق ہوگی جس کے لیے وہ پیدا کیا گیا ہے۔ ۔ ۔“۔ (اس کے بعد مکمل حديث ذکر کی)
صحابۂ کرام - رضی اللہ عنہم - ايک صحابی کے جنازہ ميں اہل مدينہ کے قبرستان ميں تھے۔ نبی صلی اللہ عليہ وسلم تشریف لائے اور صحابہ کے درميان بيٹھ گئے۔ آپ کے ہاتھ ميں ایک چھڑی تھی۔ آپ ﷺ نے کسی غمگين، فکرمند کی طرح اپنا سر مبارک جھکا لیا اور چھڑی سے زمین کو کریدنےلگے، پھر فرمايا: بلا شبہ اللہ نے لوگوں کی تقديريں اور جنت اور جہنم ميں ان کے ٹھکانے لکھ ديے ہيں۔ جب صحابہ نے نبی صلی اللہ عليہ وسلم سے يہ سنا تو عرض كيا کہ جب تقدير ميں يہ بات لکھ دی گئی ہے کہ بدبخت برا ہوگا اورنيک بخت اچھا ہوگا، نيز جو جنتی ہے جنت ميں جائے گا اور جہنمی جہنم ميں رہے گا، جب معاملہ ايسا ہےتو کيوں نہ ہم عمل کرنا چھوڑديں۔ اس ليے کہ کوشش کرنے کا کوئی فائدہ نہيں ہے، کیوں کہ ہر چيز لکھ دی گئی ہے اور مقدر کر دی گئی ہے۔ توآپ صلی اللہ عليہ وسلم نے انہيں جواب ديتے ہوئے ارشاد فرمايا: اعمال انجام ديتے رہو اور جو اللہ نے اچھا يا برا مقدر کرديا ہے اس پر اعتماد کرکے نہ بيٹھ جاؤ، بلکہ جس کا حکم ديا گيا ہے اس کے مطابق عمل کرو اور جس سے روکا گيا ہے اس سے بازرہو۔کیوں کہ جنت عمل ہی کے ذريعہ حاصل ہوگی اور جہنم ميں عمل ہی کے سبب جانا پڑےگا۔ چنانچہ صرف وہی شخص جہنم ميں جائے گا جو جہنميوں کا کام کرے گا اور صرف وہی شخص جنتی ہوگاجو جنتيوں والے اعمال انجام دے گا۔ ۔ہر شخصکو اس کی تقدير کے مطابق ہی اچھائی يا برائی کی توفيق ملتی ہے۔ پس جو نيک بختوں ميں سے ہوتا ہے اس کے ليے اللہ نيک بختوں کے اعمال آسان کر ديتا ہے اور جو بدبختوں ميں سے ہوتا ہے اس کے ليے اللہ بدبختوں کے اعمال آسان کر ديتا ہے۔