الأكرم
اسمُ (الأكرم) على وزن (أفعل)، مِن الكَرَم، وهو اسمٌ من أسماء الله...
ہشام بن حکیم بن حزام رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ان کا ملکِ شام کے کچھ عجمی کاشت کار لوگوں پر سے گزر ہوا، جنہیں دھوپ میں کھڑا کیا گیا تھا اور ان کے سروں پر تیل بہایا گیا تھا۔ انہوں نے پوچھا: یہ کیا ماجرا ہے؟ جواب دیا گیا کہ: خراج کی وجہ سے (یعنی ٹیکس نہ ادا کرنے کے جرم میں) انہیں سزا دی جا رہی ہے۔ اور ایک روایت میں ہے: جزیہ کی وجہ سے انہیں قید کیا گیا ہے۔ ہشام نےکہا: میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ فرماتے سنا ہے کہ: ’’اللہ ایسے لوگوں کو عذاب دے گا جو دنیا میں لوگوں کو عذاب دیتے ہیں۔‘‘ چناں چہ وہ امیر (گورنر) کے پاس گئے اور انہیں یہ حدیث سنائی، تو گورنر نے ان کی بابت حکم دیا اور انہیں چھوڑ دیا گیا۔
ہشام بن حکیم بن حزام رضی اللہ عنہما شام میں کچھ عجمی کسانوں کےپاس سے گزرے جنہیں جلانے کے لئے دھوپ میں کھڑا کیا گیا تھا اور ان کی سزا میں سختی لانے کے لئے ان کے سروں پر تیل انڈیلا گیا تھا اس لئے کہ سورج کی گرمی کےساتھ تیل کی گرمی زور پکڑتی ہے۔ ہشام رضی اللہ عنہ نےان کو عذاب دینے کی وجہ دریافت کی تو انہوں نے جواب دیا کہ یہ سب جس زمین پر کاشت کرتے ہیں اس کا کرایہ ابھی تک ادا نہیں کیے، اور ایک روایت میں ہے کہ: ان پر جو جزیہ واجب ہے اسے ادا نہیں کیے۔ جب ہشام رضی اللہ عنہ نےان کمزور لوگوں کے ساتھ اس قدر سختی کو دیکھا تو آپ رضی اللہ عنہ نے کہا: میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے آپ صلی اللہ علیہ و سلم خبر دے رہے تھے کہ جو لوگ دنیا میں ایسے لوگوں کو عذاب دیتے ہیں جو عذاب کے مستحق نہیں تو اللہ تعالی ایسے لوگوں کو قیامت کے دن مکمل بدلے کے طور پر عذاب دے گا۔ ہشام رضی اللہ عنہ اپنی بات کہنے کے بعد گورنر کے پاس گئے اور اس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی حدیث سنائی، گورنر کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا کہ ان کو چھوڑ دے۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ قصور وار کو ایسی سزا نہ دی جائے جس سے وہ جرم سے باز آجائے اور شر سے رک جائے۔ بلکہ جو بات ممنوع ہے وہ عام سزا سے زائد سزا دینے کے متعلق ہے۔