الباسط
كلمة (الباسط) في اللغة اسم فاعل من البسط، وهو النشر والمدّ، وهو...
عمر - رضی اللہ عنہ - سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ ہمیں تکلف سے منع کیا گیا ہے۔
اس حدیث میں عمر - رضی اللہ عنہ - یہ بتلا رہے ہیں کہ صحابہ کرام کو تکلف کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ اس حدیث میں منع کرنے والا اللہ کے رسول ﷺ ہیں۔ جب صحابی نے کہا ہمیں روکا گیا ہے تو اس حدیث کا حکم حدیث مرفوع کا ہو جائے گا، گویا صحابی نے یوں فرمایا کہ آپ ﷺ نے ہمیں تکلف کرنے سے روکا ہے۔ ’تكلف‘: ایسا فعل یا قول جو بمشقت اور تصنع سے کیا جائے اور اس میں کوئی مصلحت نہ ہو۔ قول کی مثال: جو مذکورہ باب کی حدیث میں وارد ہوا ہے، کہ عمر رضی اللہ عنہ نے اس سے زیادہ سوالات کرنا اور غیر ضروری غامض اشیاء کی بحث وتحقیق کرنا مُراد لیا ہے، جن پر شریعت کے ظاہری مفہوم کے مطابق عمل کرنا اور انہیں قبول کرنا مطلوب ہے۔ انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم لوگ عمر - رضی اللہ عنہ - کے پاس تھے، ان کے جسم پر قمیص تھی جس کی پشت میں چار پیوند لگے تھے۔ انہوں نے قرآن کریم کی آٰیت (وَفَاكِهَةً وَأَبًّا) پڑھی اور فرمایا یہ فَاكِهَةً یعنی پھل تو ہم جان چکے ہیں۔ پر یہ أَبّ کیا ہے؟ پھر فرمایا کہ ہمیں تکلف سے منع کیا گیا ہے۔ (یعنی اس کے معنی کے پیچھے پڑنے کی ضرورت نہیں)۔ فعل کی مثال: جیسے مہمان کے آںے پر ایسا اہتمام کیا جائے جو میزبان پر گراں گزرے، بلکہ کبھی وہ اس کے لئے دوسروں سے قرض لیتا ہے۔ بسااوقات یہ قرض چکانے کی طاقت نہیں رکھتا جس کی وجہ سے دنیا و آخرت میں نقصان اٹھاتا ہے۔ مسلمان کے لئے ضروری ہے کہ کسی بھی چیز میں تکلف نہ کرے، بلکہ تمام امور کو اعتدال سے نمٹائے، جیسے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا حال تھا کہ نہ تو موجود چیز کسی سے روکتے تھے اور نہ معدوم چیز کے لئے تکلف سے کام لیتے تھے۔ رياض الصالحين (ص 464) فتح الباري (13 /271) النهاية في غريب الحديث والأثر(4/196)