العظيم
كلمة (عظيم) في اللغة صيغة مبالغة على وزن (فعيل) وتعني اتصاف الشيء...
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ‘‘ہمارا رب تبارک وتعالیٰ ہر رات جب کہ رات کا آخری ایک تہائی حصہ باقی رہ جا تا ہے، آسمانِ دنیا پر نزول فرماتا ہے اور اعلان کرتا ہے: ‘‘کوئی مجھ سے دعا کرنے والا ہے کہ میں اس کی دعا قبول کروں؟ کوئی مجھ سے مانگنے والا ہے کہ میں اسے دوں؟ کوئی مجھ سے بخشش طلب کرنے والا ہے کہ میں اس کو بخش دوں؟’’
ہر رات پچھلے پہر اللہ تبارک وتعالی آسمانِ دنیا پر نزول فرماتا ہے اور اعلان کرتا ہے: ‘‘کوئی مجھ سے دعا کرنے والا ہے کہ میں اس کی دعا قبول کروں؟ کوئی مجھ سے مانگنے والا ہے کہ میں اسے دوں؟ کوئی مجھ سے بخشش طلب کرنے والا ہے کہ میں اس کو بخش دوں؟’’۔ یعنی اللہ سبحانہ وتعالی یہ پسند کرتا ہے کہ رات کے اس حصہ میں اس کے بندے اسے پکاریں اور وہ بندوں کو اس بات پر ابھارتا بھی ہے، چنانچہ وہ فریادی کی پکار کو قبول کرتا ہے، اور وہ پسند کرتا ہے کہ لوگ اس سے جو چاہیں مانگیں اور وہ انہیں نوازے ، اور وہ پسند کرتا ہے کہ لوگ اس سےاپنے گناہوں کی مغفرت چاہیں پس وہ اپنے مومن بندوں کو بخشتا ہے، اور طلب سے مراد شوق اور رغبت دلانا ہے۔ اور یہاں پر نزول سے اللہ کا نزولِ حقیقی مراد ہے جو اللہ جل جلالہ کی جلالتِ شان اور کمال کے لائق ہے، مخلوق کے نزول کی طرح نہیں۔ نزول کی تاویل رحمت کے نزول یا فرشتوں کے نزول یا اس کے علاوہ سے کرنا درست نہیں ہے بلکہ اس بات پر ایمان لانا ضروری ہے کہ اللہ آسمانِ دنیا پر اپنی جلالتِ شان کے مطابق نازل ہوتا ہے بغیر کسی تحریف، تعطیل، تکییف اورتمثیل کے، جیسا کہ اہل سنت و جماعت کا عقیدہ ہے۔