الحق
كلمة (الحَقِّ) في اللغة تعني: الشيءَ الموجود حقيقةً.و(الحَقُّ)...
مسروق کہتے ہیں کہ میں عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس ٹیک لگا کر بیٹھا ہوا تھا۔ انھوں نے کہا: اے ابو عائشہ! تین باتیں ایسی ہیں کہ جس نے ان میں سے ایک بھی بات کہی، اس نے اللہ پر بہت بڑا جھوٹ باندھا۔ میں نے کہا: وہ تین باتیں کون سی ہیں؟ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: جس نے خیال کیا کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم نے (معراج کی رات میں) اللہ کو دیکھا ہے، اس نے اللہ پر بڑا بہتان لگایا۔ مسروق کہتے ہیں کہ میں ٹیک لگائے ہوئے تھا اور (یہ بات سنتے ہی) سیدھا ہو کر بیٹھ گیا۔ میں نے کہا: ام المؤمنین ! مجھے بولنے کا موقع دیجیے اور میرے بارے میں حکم لگانے میں جلدی نہ کیجیے گا۔ کیا اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا: ”ولقد رآه بالأُفُق المُبين“ ترجمہ: اس نے اس کو آسمان کے کھلے کنارے پر دیکھا بھی ہے۔ [التکویر: 23] نیز اللہ تعالی کا فرمان ہے: ”ولقد رآه نَزْلَةً أخرى“۔ ترجمہ: بے شک اسے تو ایک مرتبہ اور بھی دیکھا تھا۔ (النجم : 13) تب عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: اس امت میں سب سے پہلے میں نے ان آیات کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’وہ تو جبریل (علیہ السلام) تھے۔ ان دو مواقع کے سوا اور کوئی موقع ایسا نہیں ہے، جس میں جبریل علیہ السلام کو میں نے ان کی اپنی اصل صورت میں دیکھا ہو، جس پران کی تخلیق ہوئی ہے۔ میں نے ان کو آسمان سے اترتے ہوئے دیکھا ہے۔ ان کی بناوٹ کی بڑائی یعنی بھاری بھر کم جسامت نے آسمان و زمین کے درمیانی جگہ کو گھیر رکھا تھا‘‘ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: کیا تم نے سنا نہیں کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ”لَّا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ ۖ وَهُوَ اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ“ ترجمہ: اس کو تو کسی کی نگاہ محیط نہیں ہو سکتی اور وہ سب نگاہوں کو محیط ہو جاتا ہےاوروہی بڑا باریک بیں اورباخبر ہے۔ [الانعام: 103] اور کیا تم نے سنا نہیں کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ”وَمَا كَانَ لِبَشَرٍ أَن يُكَلِّمَهُ اللَّـهُ إِلَّا وَحْيًا أَوْ مِن وَرَاءِ حِجَابٍ أَوْ يُرْسِلَ رَسُولًا فَيُوحِيَ بِإِذْنِهِ مَا يَشَاءُ ۚ إِنَّهُ عَلِيٌّ حَكِيمٌ“ ترجمہ: نا ممکن ہے کہ کسی بندے سے اللہ تعالیٰ کلام کرے، مگر وحی کے ذریعے، پردے کے پیچھے سے یا کسی فرشتے کو بھیجے اوروہ اللہ کے حکم سے جو وہ چاہے، وحی کرے۔ بے شک وہ برتر ہے، حکمت والا ہے۔ [الشوریٰ: 51] (دوسری بات) عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: اورجس نے یہ خیال کیا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کی کتاب میں سے کچھ چھپالیا ہے، اس نے اللہ پر بہت بڑا بہتان باندھا۔ جب کہ اللہ فرماتا ہے: ”يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ ۖ وَإِن لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ“ ترجمہ: اے رسول! جو کچھ بھی آپ کی طرف آپ کے رب کی جانب سے نازل کیا گیا ہے، پہنچا دیجیے، اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو آپ نے اللہ کی رسالت ادا نہیں کی۔ [المائدہ: 67] (تیسری بات) عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ جو شخص یہ گمان رکھتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم آئندہ کل پیش آنے والے حالات کا علم رکھتے ہیں، اس نے اللہ پر بہت بڑا بہتان باندھا، جب کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ”قُل لَّا يَعْلَمُ مَن فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ الْغَيْبَ إِلَّا اللَّـهُ“ ترجمہ: کہہ دیجیے کہ آسمانوں والوں میں سے اور زمین والوں میں سے سوائے اللہ کے کوئی غیب نہیں جانتا۔ [النمل: 65]
جلیل القدر تابعی مسروق، ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس ٹیک لگائے ہوئے بیٹھے تھے۔ چنانچہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے ان سے فرمایا: تین باتیں ایسی ہیں کہ جس نے ان میں سے کوئی بھی بات کہی، اس نے اللہ پر بہت بڑا جھوٹ باندھا۔ مسروق نے ان سے کہا: یہ باتیں کون سی ہیں؟ تو عائشہ رضی اللہ عنہا نے اس کا جواب دیا: اوّل: جس نے یہ دعویٰ کیا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا ہے، اس نے اللہ پربہت بڑا جھوٹ باندھا۔ مسروق ٹیک لگائے ہوئے تھے، مگر سیدھے ہو گئے اوران سے کہا: آپ یہ بات کیسے کہہ رہی ہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے رب کو نہیں دیکھا ہے، جب کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ”ولقد رآه بالأُفُق المُبين“ ترجمہ: اس نے اس کو آسمان کے کھلے کنارے پر دیکھا بھی ہے۔ [التکویر: 23]، نیز اللہ تعالی کا فرمان ہے: ”ولقد رآه نَزْلَةً أخرى“۔ ترجمہ: بے شک اسے تو ایک مرتبہ اور بھی دیکھا تھا۔ (النجم : 13)؟ تو عائشہ رضی اللہ عنہا نے بتایا کہ سب سے پہلے انھوں نے ہی ان دونوں آیتوں سے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھا تھا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا کہ آپ نے تو جبریل علیہ السلام کو دیکھا تھا۔ ان دو مواقع کے سوا اورکوئی موقع ایسا نہیں ہے، جب جبریل علیہ السلام کو آپ صلی اللہ علیہ سلم نے ان کی اصل صورت میں دیکھا ہو، جس پر اللہ نے ان کی تخلیق فرمائی ہے۔ ایک مرتبہ سورج نکلنے کی جگہ کے کنارے، جب کہ ہر چیز واضح اور ظاہر ہو جاتی ہے اور دوسری مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو آسمان سے اترتے ہوئے دیکھا ہے، ان کی بناوٹ کی بڑائی یعنی بھاری بھر کم جسامت نے آسمان و زمین کی درمیانی جگہ کو گھیر رکھا تھا۔ پھر عائشہ رضی اللہ عنہا نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا اپنے رب کو نہ دیکھنے کی دلیل اللہ تعالیٰ کے اس فرمان سے لی: ”لَّا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ ۖ وَهُوَ اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ“ ترجمہ: اس کو تو کسی کی نگاہ محیط نہیں ہو سکتی اور وہ سب نگاہوں کو محیط ہو جاتا ہےاوروہی بڑا باریک بیں اورباخبر ہے۔ [الانعام: 103] اور اللہ تعالیٰ کے اس فرمان سے: ”وَمَا كَانَ لِبَشَرٍ أَن يُكَلِّمَهُ اللَّـهُ إِلَّا وَحْيًا أَوْ مِن وَرَاءِ حِجَابٍ أَوْ يُرْسِلَ رَسُولًا فَيُوحِيَ بِإِذْنِهِ مَا يَشَاءُ ۚ إِنَّهُ عَلِيٌّ حَكِيمٌ“ ترجمہ: نا ممکن ہے کہ کسی بندے سے اللہ تعالیٰ کلام کرے، مگر وحی کے ذریعے، پردے کے پیچھے سے یا کسی فرشتے کو بھیجے۔ اوروہ اللہ کے حکم سے، جو وہ چاہے، وحی کرے۔ بے شک وہ برتر ہے، حکمت والا ہے۔ [الشوریٰ: 51]۔ دوم: جس نے یہ دعویٰ کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اللہ کی کتاب سے کچھ چھپا لیا ہے، اس نے اللہ پر بہت بڑا جھوٹ باندھا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ”يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ ۖ وَإِن لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ“ ترجمہ: اے رسول! جو کچھ بھی آپ کی طرف آپ کے رب کی جانب سے نازل کیا گیا ہے، پہنچا دیجیے۔ اگر آپ نے ایسا نہ کیا، تو آپ نے اللہ کی رسالت ادا نہیں کی۔ [المائدہ: 67]۔ سوم: جس نے یہ دعویٰ کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم، اللہ تعالیٰ کی وحی کے بغیر ازخود مستقبل کی باتیں بتاتے ہیں، اس نے اللہ پر بہت بڑا جھوٹ باندھا، جب کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ”قُل لَّا يَعْلَمُ مَن فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ الْغَيْبَ إِلَّا اللَّـهُ“ ترجمہ: کہہ دیجیے کہ آسمانوں والوں میں سے اور زمین والوں میں سے سوائے اللہ کے کوئی غیب نہیں جانتا۔ [النمل: 65]