الخلاق
كلمةُ (خَلَّاقٍ) في اللغة هي صيغةُ مبالغة من (الخَلْقِ)، وهو...
سر یا چہرے کا ایسا زخم جو ہڈی کو توڑ دے یا اُسے اپنی جگہ سے ہٹادے۔
قابل قصاص جرم یا تو کسی نفس کے قتل پر مشتمل ہوتا ہے یا قتل سے کم تر تعدی پر۔ پھر یہ قتل سے کم تر تعدی یا تو زخم کی صورت میں ہوتی ہے یا کسی عضو کو کاٹنے یا اس کی منفعت کو ختم کرنے کی صورت میں۔ جہاں تک زخم کی بات ہے تو اگر زخم چہرے یا سر میں لگے، تو اسے ’شِجاج‘ کہا جاتا ہے۔ جب کہ اس کے علاوہ جسم کے باقی حصوں کے زخم کو ’شَجّہ‘ نہیں، بلکہ ’جرح‘ (عام زخم) کہتے ہیں۔ 'شِجاج' دس طرح کے ہوتے ہیں: 1-پانچ زخموں کی دیت طے نہیں ہے۔ جو یہ ہیں: ’حارِصہ‘ ایسا زخم جو جلد کو تھوڑا سا چیر دے؛ تاہم خون نہ نکلے۔ ’دامیہ‘ جس زخم کی وجہ سے خون نکل جائے۔ ’باضِعہ‘ جس میں جلد کے پھٹنے کے بعد گوشت کا بھی کچھ حصہ کٹ جائے۔ ’متلاحمہ‘ جو گوشت میں لگے اور کافی اندر تک گھُس جائے اور ’سِمحاق‘ یہ وہ زخم ہے جو ہڈیوں کی بالائی اور باریک پرت تک جاپہنچے۔ 2- پانچ زخموں کی دیت طے ہے، جو یہ ہیں:’مُوضِحہ‘ جس سے ہڈی صاف نظر آنے لگے۔ ’ہاشِمہ‘ جو ہڈی کو ریزہ ریزہ کردے۔ ’مُنَقِّلہ‘ جو ہڈی کو اُس کی جگہ سے ہٹا دے۔ ’مأمومہ‘ جو دماغ تک جا پہنچے اور ’جائفہ‘ جو پیٹ کے اندر تک پہنچ جائے۔
’مُنقِّلہ‘ قاف کے زیر کے ساتھ، ایسی چیز جو کسی شے کو ایک جگہ سے دوسری جگہ کردیتی ہے۔ ’تنقیل‘ کثرتِ نقل کو کہتے ہیں۔ ’مُنَقِّلہ‘ سے مُراد وہ چوٹ بھی ہوتی ہے، جو ہڈی کو اُس کی جگہ سے ہٹادیتی اور اُسے توڑ دیتی ہے۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ اس سے مراد وہ زخم ہے، جس کی وجہ سے چھوٹی ہڈیاں نکل جاتی ہیں۔ نقل کے اصل معنی ایک جگہ سے دوسری جگہ کی طرف پھیرنے کے ہیں۔ ’نقل‘ کے معنی میں ’تغییر، تبدیلی اور تحریک بھی شامل ہیں۔