المتين
كلمة (المتين) في اللغة صفة مشبهة باسم الفاعل على وزن (فعيل) وهو...
قولی طور پر کسی کام کے نہ کرنے کا مطالبہ غلبہ کے ساتھ کرنا۔
نہی وہ قول ہے، جو کوئی کام نہ کرنے کی طلب پر دلالت کرے۔ اس میں ضروری ہے کہ طلب کرنے والا اپنے مخاطب سے رتبے میں بلند ہو۔ جیسے اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں کو اور باپ کا اپنے بیٹے کو روکنا۔ نہی کے اصل معنی تحریم کے ہیں، الاّ یہ کہ کوئی ایسا قرینۂ صارفہ‘ آجائے جو تحریم کو کراہت کی طرف پھیر دے۔ نہی کا واضح صیغہ ’لاتَفْعَلْ‘ (تو مت کر) ہے، اس کے دیگر صیغوں کو اسی سے مِلایا جائے گا۔ مختلف اعتبار سے نہی کی مختلف طور پر تقسیم کی جاتی ہے: پہلی تقسم: منہی عنہ کے اعتبار سے نہی کی تین قسمیں کی جاتی ہیں: 1- بذاتِ خود کسی شے سے نہی (ممانعت)، جیسے شراب پینے اور خنزیر کا گوشت کھانے کی نہی۔ 2- ذات کے ساتھ لازم رہنے والی کسی صفت کی نہی: مثلاً انگور کسی ایسے شخص کے ہاتھ بیچنے کی نہی جس کے بارے میں یہ معلوم ہو کہ وہ انگور نچوڑ کر اس سے شراب بناتا ہے، اسی طرح بغیر وضو کے نماز پڑھنے کی نہی، لہذا یہ نہی ایک ایسی شرط سے جُڑی ہوئی ہے جو ذات کے ساتھ لازم ہے۔ 3- ایسی شے کی نہی، جو ذات سے خارج ہو، جیسے غصب کیے ہوئے پانی سے وضو کرنے کی نہی، اس کا قاعدہ یہ ہے کہ جس چیز کی نہی وارد ہوئی ہو وہ داخل اور خارج دونوں طور پر منہی عنہ میں داخل ہے۔ نہی کی دوسری تقسیم: نہی تحریمی اور تنزیہی ہے۔ نہی تحریمی وہ ہے جو حرمت اور الزامی طور پر ممانعت کا فائدہ دیتی ہے اور نہی تنزیہی وہ ہے جو کراہت کا معنی دیتی اور مکلف شخص کو کراہت سے بچاتی ہے۔ نہی کی تیسری تقسیم باعتبار تعدد: نہی متعدد، وہ ہے جس سے باربار ممانعت وارد ہوئی ہو اور نہی واحد وہ ہے جس سے صرف ایک بار منع کیا گیا ہو۔
نہی یعنی روکنا، ڈانٹنا اور منع کرنا۔ اسی سے ’نُھْیة‘ بمعنی عقل ہے۔ اس لیے کہ عقل اپنے حامل (عقل مند) کو بُرا کام کرنے سے روکتی ہے۔نہی کی ضد امر (حکم دینا) ہے۔ یہ دراصل ’انتِہاء‘ سے ماخوذ ہے اور انتہاء معلوم حد پر رک جانے کو کہتے ہیں۔ ’نہی‘ کا اطلاق ’بُلوغ‘ اور ’وصول‘ کے معانی پر بھی ہوتا ہے۔ ’نہایہ‘ کسی شے کی انتہا اور حد کو کہا جاتا ہے۔ اس کے دیگر معانی میں تحریم، رد کرنا اور پھیرنا بھی آتے ہیں۔