جرم کرنا (إِجْرامٌ)

جرم کرنا (إِجْرامٌ)


أصول الفقه التربية والسلوك

المعنى الاصطلاحي :


ہر وہ فعل یا ترک جس پر شرعی طور پر حد یا تعزیر کے ذریعہ سزا دی گئی ہو، چاہے اس کا ارتکاب خالق کے حق میں ہو یا پھر مخلوق کے حق میں۔

الشرح المختصر :


’اجرام‘ سے مراد کسی ایسے حرام کام کا کرنا ہے جس کے کرنے پر سزا مرتب ہوتی ہے، یا یوں کہا جائے کہ: ہر وہ فعل یا ترکِ جس کے جرم ہونے کی اور اس پر سزا مرتب ہونے کی شریعت نے صراحت کی ہے۔ پس یہ شرعی محظورات ہیں جن سے اللہ تعالی نے حد یا تعزیری سزا کے ذریعہ منع کیا ہے۔ محظورات: یا تو منع کردہ چیز کا ارتکاب ہے، جیسے چوری، زنا اور قتل وغیرہ، یا پھر مامور فعل کا ترک کردینا ہے، جیسے نماز کا چھوڑ دینا، زکوۃ کا نہ دینا وغیرہ۔ کچھ جرم تو ایسے ہیں جن کی سزا معلوم ہے، جیسے زنا اور قتل۔ اور کچھ ایسے ہیں جن کی سزا مقرر نہیں ہے، بلکہ اسے حاکم پر چھوڑ دیا گیا ہے جو جو عمومی مصلحت کے مطابق اس کی تحدید کرے گا۔ شرط یہ ہے کہ اس کا مقصد بلا کسی اسراف و اہمال کے بگاڑ کا خاتمہ کرنا ہو۔ ’جرم‘ کے اعتبار سے ’اجرام‘ کی کئی قسمیں ہیں۔ جیسے انسانی جان سے متعلق جرم، عزت سے متعلق جرم اور اموال سے متعلق جرم۔ اسی طرح (ایک اور تقسیم کے اعتبار سے) ایک جرم منظم ہوتا ہے اور دوسرا غیر منظم۔

التعريف اللغوي المختصر :


الإِجْرامُ: ’جرم کا ارتکاب کرنا‘۔جب کوئی گناہ یا زیادتی کا مرتکب ہو جائے تو کہتے ہیں: ”أَجْرَمَ الرَّجُلُ“ کہ آدمی نے جرم کا ارتکاب کیا۔ ’اجرام‘ کا معنی زیادتی کرنا اور ظلم کرنا بھی آتا ہے۔ ’اجرام‘ کا لفظ دراصل ’جَرم‘ سے ماخوذ ہے، جس کا معنی ہے:’کاٹنا‘۔ ایک قول کے مطابق اس کا معنی ’کمانا‘ ہے۔