الحيي
كلمة (الحيي ّ) في اللغة صفة على وزن (فعيل) وهو من الاستحياء الذي...
دین کے صحیح اور واضح قطعی مسائل جو کسی بھی وقت یا جگہ میں تبدیل نہیں ہوتے ہیں۔
اسلامی شریعت ایک با ضابطہ جامع شریعت ہے جو ہر وقت اور جگہ کے لیے درست ہے۔ اس کے بعض احکام مستقل اور بعض متغیر ہیں: ثوابت: یہ احکام شریعت کا اکثر اور غالب حصہ ہیں۔ ان سے مراد وہ احکام ہیں جو قرآن یا صحیح حدیث کے صریح دلیل یا اجماع سے ثابت ہیں اور قیامت تک کسی بھی وقت کسی بھی جگہ تبدیل نہیں ہوں گے، ان میں اجتہاد یا بحث مباحثے یا تنازل یا ترمیم یا تبدیلی اور تغییر کی کوئی گنجاش نہیں، جس کے بارے میں شارعِ حکیم نے قطعی نصوص کے ذریعے حتمی فیصلہ فرما دیا ہے۔ ان کو مسلّمات، یا قطعیّات یا یقینیات کہتے ہیں۔ ان ثوابت کی تین بنیادی قسمیں ہیں: 1. اصولِ عقیدہ کے ثوابت: جیسے توحیدِ الوہیت، توحیدِ ربوبیت اور توحیدِ اسماء وصفات، اسی طرح اللہ تعالیٰ، فرشتوں، رسولوں اور ایمان کے بقیہ ارکان پر ایمان لانا، اور جیسے صحابہ کی تعظیم اور ان کے فضائل اور اُولی الامر کی اطاعت وغیرہ۔ 2. شریعت کے مسلمات: خواہ وہ عبادات میں ہوں یا معاملات یا جنایات میں ہوں۔ یہ قرآن و سنت کے دلائل اور اجماع سے ثابت ہیں، خواہ یہ فروعات میں سے ہوں یا قواعد میں سے۔ فروعات جیسے پانچوں نمازیں، روزہ، حج، احکامِ میراث، نیز حدود جیسے سود، شراب، تہمت لگانا وغیرہ کی حرمت۔ رہی بات قواعد کی تو جیسے سدّ ذرائع وغیرہ کا قاعدہ۔ 3. دین کے مصدر کے ثوابت: اس سے مراد قرآن اور رسول اللہ ﷺ کی سنت ہے، اور انہی دونوں کے ساتھ اجماعِ امت بھی منسلک ہے۔ لہٰذا ہر وقت اور جگہ میں، ہر چھوٹی اور بڑی چیز میں اللہ کی کتاب اور رسول اللہ ﷺ کی سنت کی طرف رجوع کیا جائے گا۔ متغیرات: یہ وہ مسائل ہیں جن میں صحیح اور صریح نص موجود نہیں۔ یہ وقت اور جگہ کے حالات وظروف کے پیشِ نظر اجتہاد کے بدلنے کے ساتھ، بدلتے رہتے ہیں۔ یہاں بدلنے سے مُراد عُرف و عادت اور مصلحت و مفاد کا بدلنا ہے۔ چنانچہ احکام کا تغیر ان (عرف، عادت اور مصلحت) کے تابع ہے۔ اس کی مثالوں میں سے: حج میں استطاعت کا مسئلہ ہے، چنانچہ قدیم زمانے میں حج کی استطاعت صرف توشے اور سواری کا مہیا ہونا تھا، جب کہ آج کے دور میں استطاعت کی صورت بدل گئی ہے۔ اسی طرح اس کی ایک مثال بیوی کے نان ونفقہ کی مقدار بھی ہے، اسی طرح اس دور میں فتنوں کی کثرت کی وجہ سے فساد کے خوف سے مساجد کا بند کرنا بھی ہے۔
ثَوَابِتْ: یہ ثابت کی جمع ہے۔ اس کا معنیٰ ہے: مستقل اور مستحکم۔ ’ثبُوت‘ کا اصل معنی کسی چیز کا برقرار اور قائم رہنا ہے۔ جب کوئی شے مستحکم اورمستقل ہو جائے تو کہا جاتا ہے: ”ثَبَتَ الشَّيْءُ، يَثْبُتُ، ثَباتاً“۔ ’ثوابِتْ‘: مستقل ومستحکم درست چیزوں کو کہتے ہیں۔
رمضانُ شهرُ الانتصاراتِ الإسلاميةِ العظيمةِ، والفتوحاتِ الخالدةِ في قديمِ التاريخِ وحديثِهِ.
ومنْ أعظمِ تلكَ الفتوحاتِ: فتحُ مكةَ، وكان في العشرينَ من شهرِ رمضانَ في العامِ الثامنِ منَ الهجرةِ المُشَرّفةِ.
فِي هذهِ الغزوةِ دخلَ رسولُ اللهِ صلّى اللهُ عليهِ وسلمَ مكةَ في جيشٍ قِوامُه عشرةُ آلافِ مقاتلٍ، على إثْرِ نقضِ قريشٍ للعهدِ الذي أُبرمَ بينها وبينَهُ في صُلحِ الحُدَيْبِيَةِ، وبعدَ دخولِهِ مكةَ أخذَ صلىَ اللهُ عليهِ وسلمَ يطوفُ بالكعبةِ المُشرفةِ، ويَطعنُ الأصنامَ التي كانتْ حولَها بقَوسٍ في يدِهِ، وهوَ يُرددُ: «جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا» (81)الإسراء، وأمرَ بتلكَ الأصنامِ فكُسِرَتْ، ولما رأى الرسولُ صناديدَ قريشٍ وقدْ طأطأوا رؤوسَهمْ ذُلاً وانكساراً سألهُم " ما تظنونَ أني فاعلٌ بكُم؟" قالوا: "خيراً، أخٌ كريمٌ وابنُ أخٍ كريمٍ"، فأعلنَ جوهرَ الرسالةِ المحمديةِ، رسالةِ الرأفةِ والرحمةِ، والعفوِ عندَ المَقدُرَةِ، بقولِه:" اليومَ أقولُ لكمْ ما قالَ أخِي يوسفُ من قبلُ: "لا تثريبَ عليكمْ اليومَ يغفرُ اللهُ لكمْ، وهو أرحمُ الراحمينْ، اذهبوا فأنتمُ الطُلَقَاءُ".