الحكم
كلمة (الحَكَم) في اللغة صفة مشبهة على وزن (فَعَل) كـ (بَطَل) وهي من...
اللہ تعالی کی وہ صفات جن کا ذکر شریعت میں آیا ہے اور ان کے اثبات میں عقلی دلیل اور فطرت سلیمہ مشترک ہیں۔
عقلی صفات: یہ وہ صفات ہیں جن سے اللہ نے اپنے آپ کو متصف کیا ہے یا اس کے رسول ﷺ نے اسے متصف کیا ہے اور ان پر عقل بھی دلالت کرتی ہے۔ یہ اشاعرہ یعنی ابو الحسن علی بن اسماعیل الاشعری کے پیروکاروں کے نزدیک صرف سات صفات ہیں، جنھیں وہ ”صفاتِ معانی“ کا نام دیتے ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ ان میں ذات باری تعالی سے زائد معنی موجود ہے۔ یہ سات صفات: علم، حیات، قدرت، سمع، بصر، کلام اور ارادہ ہیں۔ ان صفات میں سے کچھ تو ذاتی صفات ہیں اور کچھ فعلی صفات ہیں: ان کے علاوہ باقی صفات اور وہ خبری صفات اور فعلی صفات ہیں تو یہ لوگ اللہ عزوجل سے ان کی نفی کرتے ہیں اور اس میں تاویل یا پھر تفویض کو واجب قرار دیتے ہیں۔ اس سلسلے میں عقلی استدلال کا خلاصہ یہ ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ ایک دوسرے کے مقابل دو صفات میں سے کسی ایک صفت کے ساتھ متصفت نہ ہوتو لا محالہ وہ دوسری صفت سے متصف ہوگا۔ چنانچہ اگر وہ زندہ نہیں ہے تو وہ مردہ ہوگا، اگر وہ عالم نہیں ہے تو وہ جاہل ہوگا اور اگر وہ قادر نہ ہو تو پھر وہ عاجز ہو گا اور اسی طرح...۔ چنانچہ اللہ کی حیات، اس کی قدرت اور اس کے علم کی دلیل اللہ کی وہ کاریگری ہے جس کا اس کی مخلوق میں ظہور ہوتا ہے۔ اور اس کاریگری میں جو پختگی اور مہارت ہوتی ہے وہ اس بات کی دلیل ہے کہ اس کام کا کرنے والا حیات، قدرت اور علم سے متصف ہے کیوں کہ یہ کام وہ ذات نہیں کرسکتی جو ان صفات کے اضداد یعنی موت، عجز (ناچاری ) اور جہالت سے متصف ہو۔