الشافي
كلمة (الشافي) في اللغة اسم فاعل من الشفاء، وهو البرء من السقم،...
تفکر اور تدبّر سے کسی چیز کی حقیقت کا تصوّر اور اس کا ادراک کرنا۔
عرفان: یہ ’معرفت‘ کی مانند ہے یعنی ’ایسی چیز کا ادراک کرنا جس کے بارے میں اس سے پہلے ادراک نہ ہو‘۔ اور یہ ’تصوّر‘ اور ’تصدیق‘ کا مرکب ہے، اور یہ ’علم‘ اور’عمل‘ دونوں پر مشتمل ہے، اسی کو ’تصدیقِ قلبی‘ کہتے ہیں۔ صوفیاء کی اصطلاح میں ’عرفان‘ اللہ تعالیٰ کی معرفت کا وہ راستہ ہے جو کسی عارف باللہ کو الہام اور کشف کے ذریعے حاصل ہوتا ہے، جب کہ الہام اور کشف کے حصول کے بہت سے طریقے ہیں جیسے: اہلِ تصوف کے گمان کے مطابق کرامت، اس کے علاوہ خیال اور کسی چیز کی خبر ہو جانا۔ یا یوں بھی کہا جاتا ہے کہ اہلِ تصوّف کے ہاں ’عرفان‘ ان الہامات کا وقوع پذیر ہونا ہے جو اللہ کی طرف سے براہِ راست صوفی کے باطن یا دل پر وارد ہوتے ہیں۔ اور ان کے ہاں ’عارف‘ اس شخص کو کہتے ہیں جسے اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات، صفات، اوراسماء و افعال کا مشاہدہ کروا دیا ہو۔ یا وہ جو اللہ تعالیٰ کی معرفت اور محبت میں مستغرق ہو۔ ’عِرْفان‘ کی ایک باطل صورت وہ ہے جس کا بعض اہلِ تصوّف دعویٰ کرتے ہیں کہ جب وہ توحید ربوبیت میں مقامِ فنا میں داخل ہوتے ہیں تو وہاں ’عارف‘ نہ کسی اچھائی کو اچھائی سمجھتا ہے اور نہ بُرائی کو بُرائی،اور یہ ان کے نزدیک وحدۃ الوجود کے قول پر مبنی ہے۔ اور اس کو وہ ’عِرْفان‘ کا آخری درجہ قرار دیتے ہیں۔ سو ان کے ہاں اللہ کے دوست اور دشمن میں، ایمان اور کفر میں، اللہ کی حمد و ثناء اور عبادت میں اور سبّ و شتم میں اور اللہ کو تین خداؤں میں سے تیسرا ماننے میں، اور اللہ کے رسول اور ابو جہل کے درمیان اور موسیٰ اور فرعون کے درمیان فرق ختم ہوجاتا ہے۔
عرفان: یہ ’’عَرَفَ، يَعْرِفُ مَعْرِفَةً وعِرْفاناً‘‘ سے مشتق ہے، اس کا معنی: حواس خمسہ میں سے کسی ایک حِسّ کے ذریعے سے جاننا‘ ہے۔ معرفت: ’غور و فکر سے کسی چیز کا ادراک کرنا‘۔اس لفظ کا اصل معنی ’سکون‘ اور ’طمانینت‘ پر دلالت کرتا ہے۔