العزيز
كلمة (عزيز) في اللغة صيغة مبالغة على وزن (فعيل) وهو من العزّة،...
جس کے مثل بازار میں کوئی سامان موجود نہ ہو، یا اگر موجود بھی ہو تو اس کی قیمت میں، اس کے افراد میں فرق ہونے کی وجہ سے، تفاوت ہو، جیسے جانور اور جائداد (پراپرٹی) وغیرہ۔
فقہاء نے اموال کی تقسیم کئی حیثیتوں سے کی ہیں۔ جن میں سے کچھ یوں ہیں: یہ کہ اس مال کا مماثل نظیر، منضبط اوصاف کے ساتھ بازار میں موجود ہو، جیسے کسی خاص قسم کے کپڑوں کے ٹکڑے، یا ایک ہی ماڈل کی ایک ہی کمپنی کی موٹر کاریں، ایسے اموال کو مثلیات سے موسوم کیا جاتا ہے، اس لیے کہ منضبط اوصاف سے متصف ان کے نظائر بازار میں موجود ہوتے ہیں، اسی لیے ان کی قیمتوں میں تفاوت نہیں ہوتا۔ اس کے برعکس کچھ اشیاء ایسی ہوتی ہیں جن کے، منضبط اوصاف سے متصف، نظائر بازار میں موجود نہیں ہوتے، اس کے افراد میں فرق ہوتا ہے، اسی لیے ان کی قیمتوں میں بھی فرق ہوتا ہے۔ جیسے کسی ایک جنس کے جانور ہیں، مثلاً بھیڑ بکری، جس کا ہر فرد دوسرے سے الگ ہوتا ہے، وہ وزن، شکل وصورت اور گوشت کے ذائقہ میں یکساں نہیں ہوتے، اسی لیے ایسے اموال کو قیمیات کے خانہ میں رکھاجاتا ہے، یعنی ان کی بیع وشراء کے لیے، رائج کرنسی کی شکل میں قیمت طے کی جانی ضروری ہے۔ بعض فقہی مکاتبِ فکر جیسے مالکیہ کے یہاں قیمیات کو مقوِّمات اور شوافع کے یہاں متقوّمات سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
’قیمیّات‘، قِيْمِيّ کی جمع ہے، (جو قیمت کی طرف منسوب ہے)۔ ’قیمی‘ اس سامانِ تجارت کو کہتے ہیں جس کا اندازہ اس کے برابر قیمت سے لگایا جاتا ہے، اس لیے کہ اصلاً اس کی کوئی ایسی صفت نہیں ہوتی جس کی بنیاد پر اس کو طے کیا جاسکے پھر اس کی طرف اس کی نسبت کی جا سکے، یعنی اس کے مثل کوئی دوسری چیز نہیں ہوتی جو اس کا متبادل بن سکے۔