السيد
كلمة (السيد) في اللغة صيغة مبالغة من السيادة أو السُّؤْدَد،...
کسی چیز کو کسی ایسی چیز پر مرتب کرنا جو اسی کے مثل دوسری چیز پر مرتب ہے۔
’تسلسُلْ‘ ایک اصطلاح ہے، جس کا ذکر قرآن وسنت میں نہیں ہے۔ کتاب وسنت میں صرف ’سلسلہ‘ اور ’سلاسل‘ کے الفاظ وارد ہوئے ہیں۔ ’لفظِ تسلسل‘ ان مجمل الفاظ میں سے ایک ہے، جن کی ایجاد متکلمین نے کی ہے۔ مطلق ’تسلسل‘ سے لامتناہی امور کی ترتیب مُراد ہوتی ہے، گرچہ اس کا لغوی معنی عدمِ انتہا پر دلالت نہیں کرتا، بلکہ اس قبیل کے جو الفاظ لغت میں مستعمل ہیں، وہ انتہا (اختتام) پذیر ہونے والے ہیں۔ تسلسل کی تین انواع ہیں: 1. پہلی نوع: تسلسلِ ممتنع: یہ وہ تسلسل ہے، جو اثرانداز ہونے والی اشیاء، فاعل اور محرکات وعلل کے اندر ہوتا ہے۔ مثلا کسی فاعل کا کوئی فاعل ہونا، پھر اس فاعل کا کوئی فاعل ہونا اور اس سلسلے کا لامتناہی حد تک چلتے رہنا۔ ایسا تسلسل عقلِ صریح اور عقلاء کی اتفاقِ رائے سے باطل ہے۔ اسی نوع کی ایک مثال ہر مُؤثِّر کے لیے کسی مُؤثِّر کے وجود کا تسلسل ہے۔ جیسے یہ کہا جائے کہ ’حادث کے لیے ضروری ہے کہ کوئی سببِ حادث ہو، پھر اس سبب کے لیے بھی ضروری ہے کہ کوئی سببِ حادث ہو۔ 2. دوسری نوع: تسلسلِ ممکن: یہ وہ تسلسل ہے، جو مفعولات اور یکے بعد دیگرے پیش آنے والے آثار کے اندر پایا جاتا ہے؛ مثلا دوسرے حادث کا اس سے پہلے کے کسی حادث پر موقوف ہونا اور اس حادث کا اس سے پہلے کے کسی حادث پر موقوف ہونا اوراس سلسلے کا چلتے رہنا۔ اس کی صحت وجواز کے سلسلے میں اختلاف ہے۔ اس میں لوگوں کی تین رائیں پائی جاتی ہیں: پہلی رائے: یہ مطلقا جائز ہے۔ یہ ائمۂ سنت وحدیث اور اساطین فلاسفہ کی رائے ہے؛ لیکن عام مسلمان، ساری ملتوں کے پیروکار اور تمام فرقوں کے جمہور عقلاء کا کہنا ہے کہ اللہ کے سوا ساری چیزیں مخلوق اور حادث ہیں، پہلے اُن کا کوئی وجود نہ تھا۔ جب کہ فلاسفہ عالَم کے قدیم ہونے کے قائل ہیں۔ دوسری رائے:ایسا تسلسل نہ تو ماضی میں ممکن ہے، نہ مستقبل میں۔ یہ جہم بن صفوان اور ابو ہُذَیل العلّاف کا قول ہے۔ تیسری رائے: یہ تسلسل مستقبل میں تو جائز ہے، لیکن ماضی میں نھیں۔ یہ جہمیہ فرقے میں سے جہم بن صفوان اور ابو ہُذیل کے اکثر متبعین، نیز معتزلہ ، اشاعرہ اور ان کی موافقت کرنے والوں کی رائے ہے۔ 3. تیسری نوع: تسلسلِ واجب؛ وہ تسلسل ہے، جس پر عقل اور شریعت دلالت کرتی ہیں۔ جیسے ابد تک رب العالمین کے افعال میں دوام کا ہونا اور یہ کہ جب جب اہلِ جنت کی نعمتیں ختم ہوجائیں گی، اللہ تعالیٰ ان کی جگہ دوسری نعمتیں پیدا کردے گا۔ اس طرح وہاں کی نعمتیں کبھی ختم نہیں ہوں گی۔ اسی طرح اس پاک ہستی کے افعال میں ازل سے تسلسل ہونا، بایں طور کہ اس کے ہر فعل سے پہلے کوئی نہ کوئی فعل تھا، ہمارا رب کبھی بھی کلام، ارادے اور فعل جیسے اوصافِ کمال سے خالی نہیں رہا ہے۔
تسلسل: پے در پے ہونا، ایک دوسرے کے پیچھے ہونا، جڑنا اور پھیلنا۔ کہا جاتا ہے ’تَسَلْسَلتِ الأشیاءُ‘ کہ چیزیں لگاتار یکے بعد دیگرے مربوط اور منظم انداز میں پیش آئیں۔ ’سلسلہ‘ ایک شے کے دوسری شے سے ملنے کو کہتے ہیں۔